ویت نام نے لوگوں کی نقل و حرکت اور سماجی دوری کے سخت اقدامات میں نرمی لانا شروع کردی ہے اور روزمرہ کی زندگی بتدریج معمول پر آنا شروع ہوگئی ہے۔
ویت نام کے وزیراعظم گوئین ژوان پھوک نے بدھ کو اعلان کیا کہ ملک کا کوئی صوبہ اس وبا سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتا، تاہم کچھ کاروبار تاحال بند رہیں گے۔
ساڑھے 9 کروڑ آبادی والے اس ملک نے کورونا وائرس کی وبا پر اتنی کامیابی سے قابو پایا ہے کہ وہاں اس سے ہونے والی بیماری کے نتیجے میں ایک ہلاکت بھی نہیں ہوئی جبکہ مجموعی کیسز کی تعداد صرف 268 ہے۔
وائرس کی روک تھام میں اس ترقی پذیر ملک نے اپنے امیر پڑوسیوں جیسے جنوبی کوریا اور تائیوان کی طرح کامیابی حاصل کی اور یہ اس لیے بھی متاثرکن ہے کیونکہ ویت نام چین کا بھی پڑوسی ملک ہے۔
ویت نام کی جانب سے نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے موثر ردعمل درحقیقت سارس اور سوائن فلو جیسے وبائی امراض کے نتیجے میں پہلے سے تیار تھا۔
ویت نامی حکمت عملی میں اہداف، کانٹیکٹ ٹریسنگ اور ٹیسٹنگ کے امتزاج پر توجہ دی گئی اور کم افراد پر ہی اس کو پھیلنے سے روک دیا۔
جنوری میں ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں پہلا کیس سامنے آیا تھا اور چین سے باہر یہ پہلا بین الاقوامی کیس بھی تھا، جس کے فوری بعد حکومت نے اقدامات شروع کردیئے تھے۔
فروری میں شمالی صوبے کے ایسے 10 ہزار سے زائد افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا تھا جہاں انفیکشن پھیلتا نظر آرہا تھا۔
ویت نام میں ابتدا میں زیادہ خطرات سے دوچار خطوں سے آنے والے افراد کو 14 دن تک قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کای تھا، فروری کے آغاز سے ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے تھے۔
مارچ میں ویت نام میں 22 دن تک کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا مگر پھر لندن سے آنے والی ایک پرواز میں نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد تمام مسافروں کو تلاش کرکے آئسولیشن میں رکھا گیا جبکہ برطانیہ اور متعدد یورپی ممالک کے لیے ویزا فری انٹری کو معطل کردیا، بعد ازاں سرحدوں کو ہی سیل کردیا۔
ویت نام میں بہت بڑی عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہم شروع کی گئی جس میں ہاتھ دھونے کا گانا وائرل بھی ہوا۔
ویت نام میں پہلے ہی عوامی نگرانی کے عمل کو موثر بنا کر اس وبا کے خلاف اسے کارآمد ہتھیار بنایا گیا، جبکہ انٹرنیٹ کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔