مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ایک بار پھر اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایک اور پیش رفت میں اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک دیہی علاقے کے ایک ہزار سے زائد فلسطینی باشندوں کو ایک ایسے علاقے سے بے دخل کرنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا.
جسے اسرائیل نے فوجی مشقوں کے لیے مختص کیا ہے۔
پولیس نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز پر پتھر اور دیگر چیزیں پھینکنے والے ’سیکڑوں افراد‘ کو پیچھے دھکیل دیا۔
اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ مسجد اقصیٰ کے باہر بڑی تعداد میں پولیس نفری موجود تھی کیونکہ یہودی عبادت گزاروں کے گروپ رواں ماہ پہلی بار اس مقام پر واپس آئے تھے۔
تاہم۔ فلسطینی حلال احمر نے کہا کہ جھڑپوں میں 2 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ جھڑپیں اسرائیل کی 1948 کی آزادی کے موقع پر اور مسلمانوں کے مقدس ماہ رمضان، یہودیوں کی عید فسح اور مسیحیوں کے ایسٹر کے تہوار کے بعد ہوئیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے شیخ عمر القصوانی نے کہا کہ تقریباً 600 یہودی انتہاپسند مسجد کے احاطے میں جمع ہوئے۔
فلسطین کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی کارروائیوں کو ’مذہبی جنگ کا اعلان‘ قرار دیا جبکہ اردن نے اسرائیل کی طرف سے یہودی انتہا پسندوں کو مسجد کے احاطے میں جانے کی اجازت دینے کی مذمت کی۔
فلسطینی مسجد کے احاطے میں یہودیوں کے داخلے میں اضافے سے ناراض ہیں، جہاں تاریخی کنونشن کے تحت یہودی جاسکتے ہیں لیکن انہیں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لاپِد نے کہا کہ اسرائیلی ریاست اس جمود کو ’تبدیل نہیں کرے گی‘۔
حالیہ کشیدگی پُرتشدد اپریل کے بعد سامنے آئی ہے جس میں الاقصیٰ میں پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے تھے، جبکہ اسرائیل میں حملوں اور اسرائیلی فوج کے چھاپوں کی لہر کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی تشدد بھڑک اٹھا تھا۔
اسی دوران 26 فلسطینی اور 3 اسرائیلی عرب مارے گئے تھے جن میں حملے کے مرتکب افراد اور وہ لوگ بھی شامل تھے جو مغربی کنارے میں آپریشنز کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے تھے۔
فلسطینی بستیاں
دو دہائیوں کی غیر نتیجہ خیز قانونی چالوں کے بعد اسرائیل کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز (4 مئی کو) فلسطینی باشندوں کی بے دخلی کے خلاف درخواست پر اپنا فیصلہ جاری کیا، اس بےدخلی سے الخلیل کے قریب ایک چٹانی بنجر علاقے میں 8 چھوٹے دیہاتوں کو مسمار کرنے کی راہ ہموار ہو گئی تھی جسے فلسطینی مسافر یاٹا کے نام سے جانتے ہیں اور اسرائیلی اسے جنوبی الخلیل چٹانوں کے طور پر جانتے ہیں۔
اسرائیلی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس علاقے میں فلسطینیوں کے موجود ہونے کا ثبوت ملتا ہے جن کے باشندوں نے نسلوں سے خانہ بدوش طرز زندگی گزاری ہے جس میں وہ کھیتی باڑی، گلہ بانی سے گزارہ کیا ہے اور وہ اس علاقے کے مستقل رہائشی نہیں تھے جب اسرائیلی فوج نے پہلی بار 1980 میں اس علاقے کو فائرنگ زون قرار دیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ گاؤں والوں کے لیے زمین کے کچھ حصوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر فوج کے ساتھ اتفاق کرنے کے لیے دروازہ اب بھی کھلا ہے اور فریقین پر زور دیا کہ وہ سمجھوتہ کریں۔