دیوبند : اُردو زبان وادب کی بلند پایہ شخصیت پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کا انتقال اُردو زبان وسخن کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ گزشتہ کل جس وقت ان کے انتقال کی خبر آئی تو اُردو حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی، پدم شری اعزاز یافتہ گلزار دہلوی گزشتہ سات آٹھ دھائیوں سے اُردو کی آبیاری میں مصروف تھے۔ 94سالہ گلزار دہلوی مشترکہ تہذیب کے امین تھے۔
دیوبند کے ادبی حلقوں میں بھی ان کے انتقال سے فضا مغموم ہوگئی، یہاں اہل قلم وادبا نے بذریعہ فون اپنے تاسف کااظہار کیا۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ گلزار دہلوی سے احقر کی بہت قریبی شناسائی تھی متعدد مشاعروں اور ادبی محفلوں میں مجھے ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا ان کااخلاق وکردار بہت بلندتھا۔ وہ تمام عمر اُردو کی جنگ لڑتے رہے، اُردو زبان کا ایسا عاشق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، گلزار دہلوی کی اُردو دوستی کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ عرف کمل دیوبندی نے تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ گلزار دہلوی اُردو کے مجاہد تھے اُردو سے ان کو حددرجہ عشق تھا، افسوس کہ ان کے انتقال سے اُردو اپنے ایک سچے محسن سے محروم ہوگئی۔ اُردو زبان وادب کے نامور صاحب قلم عبداللہ عثمانی نے اپنے تأثرات میں کہا کہ اُردو زبان کے اس دور زوال میں گلزاردہلوی کا وجود بہت اہم تھا ،
مرحوم اُردو زبان کے شیدائی اور علمبردار تھے ان کے انتقال سے اُردو کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ عبداللہ عثمانی نے مزید کہا ایک ادبی پروگرام میں ان سے ملاقات ہوئی توان کی محبت اور حوصلہ افزائی کا نقش دل مرجع گیا۔تنویر اجمل دیوبندی نے کہا کہ گلزار دہلوی اردو زبان کے عظیم شاعر ومحب تھے ان کی زبان پر ارددو کے بے شمار قیمتی الفاظ واصطلات ان کی اُردو دانی کی دلیل تھے،
ان کے انتقال سے اُردو کا بہت بڑا نقصان ہواہے۔شاعر شمیم مضطر دیوبندی اور شمش دیوبندی نے کہا کہ دبستان داغ کے متعلق گلزار دہلوی ہمار ے عصر کے بہت ممتاز ادیب تھے ان کی اردو خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا، مشاعرے ہوں کہ اُردوکانفرنس ہر ایک محفل میں اپنی زبان وگفتار سے محفل میں رنگ بھرنے والے گلزار دہلوی کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُرہونا مشکل نظر آتاہے۔