نئی دہلی:ؒکانگریس نے نوٹ بندی کو ‘کالے دھن کو سفید کرنے ‘کا بڑاگھپلہ قراردیتے ہوئے آج یہاں ریزروبینک کے سامنے احتجاجی مظاہر کیااور کئی سینئر لیڈروں نے گرفتاری دی ۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری اشوک گہلوت کی قیادت میں کانگریس کے کارکنان نوٹ بندی کی دوسال مکمل ہونے کے موقع پر صبح ہی ریزرو بینک کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے اور اسکے خلاف نعرہ بازی کی ۔مسٹر گہلوت ،آنند شرما ،بھوپیندر سنگھ ہڈا ،مکل واسنک ،سشمتادیو اور بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں نے گرفتاری دی۔
کانگریس نوٹ بندی کے بعد سے ہی مودی حکومت کی اس پالیسی کی مخالفت کرتی رہی ہے ۔اسکا کہنا ہے کہ اس سے ملک کی معیشت تباہ ہوگئی اور چھوٹے کارباریوں کا کام ٹھپ ہوگیا اور لاکھوں لوگ بے روزگارہوئے ۔پارٹی نے کہاکہ حکومت نے یہ فیصلہ کرکے لوگوں کو اپنا پیسہ بینکوں سے نکالنے کے لئے محتاج بنادیا اور کروڑوں لوگوں کو لائن میں کھڑاکردیاتھا۔پارٹی کا کہنا ہے کہ دوسال بعد بھی ملک نوٹ بندی سے ہوئے نقصان سے نکل نہیں پایاہے ۔اس کے لئے حکومت کو ملک سے معافی مانگنی چاہئے ۔ کانگریس کے میڈیا انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ دو سال قبل آٹھ نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کی تباہی کو اقتصادی انقلاب کا نیا فارمولہ قراردیتے ہوئے تین اسباب بتائے تھے ۔ تمام کالا دھن پکڑا جائے گا، نقلی نوٹ پکڑے جائیں گے اور دہشت گردی اور نکسل ازم ختم ہوجائے گا۔ مسٹرمودی نے 13نومبر 2016 کو کہا تھا’میں نے ملک سے صرف پچاس دن مانگے ہیں… اس کے بعد اگر میری کوئی غلطی نکل جائے تو جس چوراہے پر کھڑاکریں گے ،ملک جو سزا دے گا اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔’
مسٹر سرجے والا نے کہا کہ نوٹ بندی کے 731دن گذر گئے ہیں لیکن کسان ، نوجوان، تاجر، خواتین اور دکاندار سب پریشان ہیں اور لوگوں کی روزی روٹی کے ساتھ ساتھ اس سے معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف نوٹ بندی نے جہاں کسان ، نوجوان ، چھوٹے کاروباری اور دکاندار وں کی کمر توڑ ڈالی وہیں دوسری طرف کالا دھن جمع کرنے والوں نے راتو ں رات اسے سفید بنالیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 10دسمبر 2016 کو حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 15.44 لاکھ کروڑپرانے نوٹوں میں تین لاکھ کروڑ کالا دھن ہے جو جمع نہیں ہوگا او رضبط ہوجائے گا۔ وزیر اعظم کو ملک کو بتانا چاہئے کہ کالا دھن کہاں گیا کیوں کہ ملک میں اس وقت چلن میں جو بھی نوٹ تھے وہ تقریباً سارے واپس آگئے تھے ۔ اس سے بی جے پی کا جھوٹ پکڑا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تین لاکھ کروڑ کالا دھن پکڑنا تو دور کی بات اب حکومت آر بی آئی کے ریزرو کھاتے کا تین لاکھ کروڑ زبردستی نکالنے پر آمادہ ہے جو 71 سال میں کبھی نہیں ہوا۔ کانگریس رہنما نے پوچھا کہ نقلی نوٹ کہا ں گئے ۔ کیا یہ بھی بی جے پی کا جملہ تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا انتہاپسندی اور نکسل ازم ختم ہوگیا؟ نوٹ بندی کے بعد اکیلے جموں و کشمیر میں 86کروڑ بڑے انتہاپسندانہ حملے ہوئے جن میں 127 جوان شہید ہوئے اور 99شہری مارے گئے ۔ تو کیا مودی حکومت نے ملک کو جان بوجھ کر گمراہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ نئے نوٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے کی قیمت نوٹ بندی کی بچت سے 300فیصد زیادہ ہے ۔ آر بی آئی کے مطابق سال2016-17 اور 2017-18 میں نئے نوٹ چھاپنے اور لکویڈیٹی آپریشن کی قیمت 30303 کروڑ روپے ہے جب کہ نوٹ بندی میں صرف10720 کروڑ روپے واپس جمع نہیں ہو پائے ۔ وہ بھی اگر رائل بینک آف بھوٹان اور نیپال میں جمع پرانے نوٹوں کی گنتی نہ کی جائے تب۔ کیا حکومت بتائے گی کہ اتنے بڑے اقتصادی خسارہ کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟
مسٹر سرجے والا نے کہا کہ سنٹرفار مانیٹرنگ آف انڈین اکنامی کی رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی سے براہ راست پندرہ لاکھ ملازمتیں چلی گئیں اور ملک کی معیشت کو تین لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہی نہیں بینکوں کی قطاروں میں 120سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگئی۔ سورت سے لے کر تروپور تک اور آسنسول تک سب کام کاج چوپٹ ہوگئے ۔ خواتین کی تمام بچت لوٹ لی گئی۔ کیا یہ سیدھے طورپر اقتصادی دہشت گردی نہیں ؟ کانگریسی لیڈر نے الزام لگایا کہ نوٹ بندی سے ٹھیک پہلے بی جے پی اور آر ایس ایس نے سینکڑوں کروڑ روپے کی جائیداد پورے ملک میں خریدی۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر 2016 میں بینکوں میں اچانک588600 کروڑ روپے زیادہ جمع ہوا۔ اس میں سے تین لاکھ کروڑ روپے فکسڈ ڈپازٹ میں صرف پندرہ دنوں میں جمع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی والے دن یعنی آٹھ نومبر 2016 کو بی جے پی کی کلکتہ یونٹ کے اکاونٹ نمبر 554510034 میں پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے تین کروڑ روپے جمع کرائے گئے ۔ انہوں نے ان سب معاملات کی انکوائری کئے جانے کا مطالبہ کیا ۔
انہوں نے دعوی کیا کہ اکیلے گجرات کے گیارہ ضلع کوآپریٹیو بینکوں میں نوٹ بندی کے پانچ دنوں میں غیرمعمولی طورپر 3881.51 کروڑ روپے کے پرانے نوٹ جمع ہوگئے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان سب معاملات کی جانچ کی جانی چاہئے ۔