متاثرین کے لیے جدوجہد کرنے کے عظیم جذبہ سے سرشار اور بے باکی سے اپنی بات رکھنے والے اتر پردیش کانگریس صدر اجے کمار للو ایک ایسے شخص ہیں جو متاثرین کی پریشانی و تکلیف خود پر بیتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔
اناؤ آبرو ریزی معاملہ، جس میں متاثرہ کو آبرو ریزی کے مجرمان نے زندہ جلا دیا، نے ہم سب کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ میں متاثرہ کنبہ سے ملنا چاہتی تھی۔ ٹھنڈ اور کہرے سے بھری ایک صبح ہم اناؤ کے لیے نکلے۔ کار کے اندر ماحول اداس تھا، جس کنبہ سے ہم ملنے جا رہے تھے اسے تشدد نے اجاڑ دیا تھا۔ا نصاف کے لیے ان کی جدوجہد اور درد کو ہم نے حقیقت میں محسوس کیا تھا۔ لیکن ناانصافی دیکھ کر خاموش رہنا، اجے للو کی فطرت نہیں ہے۔ کہنے لگے “دیدی، پوری ریاست میں تحریک چھیڑنی پڑے گی۔” انھوں نے درخواست کی کہ “سنگھرش، سمپرک اور سمواد” (جدوجہد، رابطہ اور بات چیت) ان کے بغیر دیدی کچھ بھی کر لیجیے، سیاست کامیاب نہیں ہو سکتی۔”
کچھ گھنٹوں میں ہماری منزل آ گئی۔ جھونپڑی کے باہر بھیڑ تھی۔ کیمرے اور مائک کے ساتھ لوگ جھونپڑی کے پیچھے ایک چارپائی پر گرے پڑے تھے۔ چارپائی پر لڑکی کی بھابھی اور 9 سال کی بھتیجی بیٹھی تھی۔ عمر سے زیادہ بوڑھے ہو چکے اس کے والد بغل میں کھڑے تھے۔ بے لگام بھیڑ کو دیکھتے ہوئے میں نے درخواست کی کہ ہم ان کی کوٹھری کے اندر چلیں اور ان کی باتیں سنیں۔ لڑکی کی بھابھی کنبہ کے خوفزدہ تجربہ کو بتا رہی تھی۔ ہم خاموش شرمندہ ہو کر ان کی غیر تصوراتی آپ بیتی کو سن رہے تھے۔
لڑکی کے والد چارپائی کے ایک کونے پر بیٹھے تھے۔ کوٹھری کی اکلوتی کھڑکی سے آنے والی روشنی ان کے چہرے کی جھریوں پر پڑ رہی تھی۔ اب تک وہ ایک لفظ بھی نہیں بولے تھے۔ بہو نے یہ بتاتے ہوئے اپنی داستان ختم کی کہ کس طرح ان کے کھیتوں میں آگ لگا دی گئی اور جس کوٹھری میں ہم بیٹھے تھے اسی میں گھس کر انھیں بے رحمی سے پیٹا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس سب کے باوجود ان کی بہادر لڑکی ٹرین میں بیٹھ کر نزدیک کے ضلع رائے بریلی اکیلے جاتی تھی تاکہ وہ ضلع عدالت میں اپنے کیس کی سماعت میں حاضر رہ سکے۔ “ہم سے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ کہتی تھی، آپ فکر مت کرو، یہ میری لڑائی ہے، میں اسے خود لڑوں گی۔”
یہ سنتے ہی اچانک لڑکی کے والد اپنے منھ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگے۔ ان کا تھکا ہوا جسم اندر کی جانب جھک گیا۔ اجے للو فوراً ان کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھ گئے اور ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ للو کی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے، “ہم ہیں نہ آپ کے ساتھ بابا”۔ انھوں نے دھیمے سے کہا “حوصلہ رکھو۔”
جب ہم کوٹھری سے نکلے تو اجے للو ہمارے ساتھ باہر نہیں آئے۔ بہت سارے لوگوں کے برعکس کشش کا مرکز بننے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اس کنبہ کے ساتھ کوٹھری میں تسلی دیتے بیٹھے رہے۔
جیسے ہی ہمارا قافلہ لکھنؤ میں داخل ہونے کو ہوا، للو کہنے لگے کہ انھیں اسمبلی کے پاس چھوڑ دیا جائے، جہاں کچھ کارکنان معاملہ کی مذمت کرنے کے لیے جمع تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں اطلاع ملی کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں۔ میں جہاں رکی تھی وہاں دیر شام جب وہ رہا ہو کر لوٹے، میں نے تھوڑی کھنچائی کرتے ہوئے پوچھا “اب من شانت ہوا اجے بھیا؟ پولس سے سمپرک-سمواد کر آئے؟” ہنسنے لگے اور کہا “دیدی سڑک پر تو اترنا ہی ہوگا!”
متاثرین کے لیے جدوجہد کرنے کے عظیم جذبہ سے سرشار، اپنے کئی ساتھیوں کی ڈرائنگ روم سیاست سے اَن کمفرٹ اور بے باکی سے اپنی بات رکھنے والے اتر پردیش کانگریس صدر اجے کمار للو ایک ایسے شخص ہیں جو جدوجہد اور تکلیف خود پر بیتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔
وہ مشرقی اتر پردیش کے کشی نگر ضلع کے سیورہی گاؤں میں پیدا ہوئے، جہاں بودھ مذہب کی لاتعداد نشانیاں ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اجے للو تب کلاس 6 کے طالب علم تھے جب انھوں نے سڑک پر ٹھیلہ لگایا۔ دیوالی میں پٹاکے فروخت کیے، بوائی کے موسم میں کھاد اور باقی کے دنوں میں نمک۔
کالج کے وقت للو کا سابقہ اسٹوڈنٹ پالیٹکس سے پڑا۔ وہ طلبا یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ خدمت کے جذبہ اور جوش سے لبریز اس نوجوان کو ایک دن مین اسٹریم کی سیاست میں آنا ہی تھا۔ مگر آزاد امیدوار کے طور پر اپنا پہلا الیکشن ہارنے کے بعد معاشی مشکلوں سے نبرد آزما للو کے سامنے دہلی جا کر کمانے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچا۔
اناؤ جانے کے دن، انھوں نے مجھے بتایا کہ دہلی میں وہ ایک جھگی میں دیگر مزدوروں کے ساتھ رہے۔ کمائی تھی روز کے 90 روپے۔ مگر علاقہ کے لوگ انھیں بھولے نہیں اور فون کر کے واپس بلاتے رہے۔ دو سال بعد للو واپس لوٹے اور یوتھ کانگریس کے بوتھ صدر کے طور پر اپنی نئی اننگ کی شروعات کی۔ تحریک، دھرنا، مظاہرہ، گرفتاری جیسے روز کا کام بن گیا۔
للو کی مقبولیت اور جدوجہد کرنے والے انداز نے انھیں 2012 کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر 10 ہزار ووٹوں سے جیت دلائی۔ ‘جنتا کا آدمی’ جو ہمیشہ عام فہم تھا۔ 2017 میں الیکشن میں پھر وہ جیتے، جب کہ بی جے پی کی زبردست لہر تھی۔
ریاستی صدر بنتے ہی اجے کمار للو نے سبھی اضلاع کا بغیر تھکے دورہ کیا اور سون بھدر معاملہ سے لے کر، اناؤ-شاہجہاں پور آبروریزی معاملہ، بجلی محکمہ ڈی ایچ ایف ایل گھوٹالہ، سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک، کسان جن جاگرم مہم میں سب سے آگے رہ کر عوام کی آواز کو اٹھایا اور قیادت کی۔ ان کی قیادت میں ہماری تنظیم خود کو اینٹ در اینٹ جوڑ کر ایک جواب دہ، ہمدرد اور بے خوف طاقت بننے کے عمل میں آگے بڑھ رہی ہے جو صوبہ کے عام لوگوں کی آواز کو بلند کرتا ہے۔
جیسے ہی کورونا وبا پھیلنی شروع ہوئی اور غیر منظم لاک ڈاؤن سے لاکھوں غریب کنبے در بدر ہونے لگے، اجے للو نے لوگوں کو راحت پہنچانے کی اتر پردیش کانگریس کی بڑی مہم کی قیادت شروع کی۔ ہر ضلع میں پارٹی کارکنان نے ہیلپ لائن شروع کی، کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے، ساجھی رسوئیاں شروع کیں۔ اتر پردیش میں ہم نے 90 لاکھ لوگوں کو اپنی مشترکہ کوششوں سے مدد پہنچائی اور دیگر ریاستوں میں پھنسے 10 لاکھ مہاجروں کی مدد کی۔
خدمت اور مدد کی نیت سے یو پی کانگریس نے اپنے گھروں کو پیدل لوٹ رہے ہزاروں مہاجروں کی مدد کرنے کے لیے اپنی طرف سے 1000 بسیں چلانے کی تجویز اتر پردیش حکومت کو دی۔ مدد اور خدمت کے جذبہ سے متاثر ہماری اس تجویز سے نہ جانے کیوں اتر پردیش حکومت پہلے دن سے ہی بے چین ہو گئی۔ پہلے 17 مئی کو تو انھوں نے ہماری تجویز کو مسترد کر دیا اور یو پی کی سرحد سے 500 بسوں کو واپس بھیج دیا۔ 18 مئی کو پھر انھوں نے ہماری تجویز کو قبول کرتے ہوئے بسوں کے دستاویز طلب کیے۔ انھوں نے گاڑیوں کی لسٹ کے ساتھ ڈرائیوروں-کنڈکٹروں کے نام، بسوں کی فٹ نس و پولیوشن سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہمیں صرف 10 گھنٹے کا وقت دے کر ساری بسوں کو لکھنؤ لانے کو کہا۔ یہ فیصلہ بالکل بے تکا تھا کیوں کہ معاملہ تو دہلی-یو پی بارڈر سے مہاجروں کو لے جانے کا تھا۔ خالی بسوں کو لکھنؤ لے جانا ہمیں وقت اور وسائل کی بربادی لگی۔ اس پر یو پی حکومت نے جواز پیش کیا کہ دو گھنٹے میں اپنی بسوں کو نوئیڈا اور غازی آباد کی سرحد پر کھڑا کریں۔ اسی دوران حکومت نے غلط پروپیگنڈہ شروع کر کے ہم پر فرضی لسٹ بنانے کا الزام لگا دیا۔ انھوں نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا کہ ہماری 900 بسیں نوئیڈا کے مہامایا پل پر 19 مئی کی دوپہر سے کھڑی تھیں۔ 19 مئی کی رات اجے للو گرفتار کر لیے گئے۔
ایک ہزار سے زائد بسیں چلنے کی اجازت کا انتظار کرتی کھڑی رہیں۔ دو دنوں بعد 1000 بسیں خالی واپس لوٹ گئیں۔
جب انھیں لکھنؤ پولس آگرہ سے لکھنؤ جیل کے لیے لے کر نکل رہی تھی تو میں نے کسی طرح سے ان سے فون پر بات کی۔ میں فکرمند تھی، “کیا ضرورت تھی اس وبا کے وقت میں گرفتار ہونے کی؟ اپنی صحت کا تھوڑا تو خیال رکھیے۔” اس سے پہلے کہ میں پوری بات کہہ پاتی، فون پر ان کی جوش سے بھری ہنسی پھوٹ پڑی، “ارے دیدی، یہ جابر حکومت ہے۔ اس کے سامنے میں کبھی بھی سر نہیں جھکاؤں گا۔ آپ میری فکر مت کریں۔”
اگلی صبح ان کے اوپر کئی دفعات میں فرضی مقدمے درج کیے گئے۔ الزام ہےکہ انھوں نے یو پی حکومت کو گاڑیوں کے نمبر غلط دیے۔ اسی ‘جرم’ میں وہ آج تک لکھنؤ جیل میں قید ہیں۔ یہ بیسویں بار ہے جب انھیں ایک ڈری ہوئی غیر جمہوری حکومت نے حراست میں لیا ہے۔ اتنی ناانصافی اور جبر کے بعد بھی وہ نڈر، اٹل اور اجے ہیں۔ جمہوریت اور عدالت پر انھیں مکمل بھروسہ ہے۔ قربانی اور خدمت کا ان کا جذبہ ناقابل شکست ہے۔
اجے للو اس ہندوستان کے سچے شہری ہیں جس کے لیے مہاتما گاندھی نے لڑائی لڑی تھی۔
وہ انصاف کے حقدار ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔