بھرپورانسدادی کوششوں کے باوجود کورونا وائرس کا تیزی کے ساتھ پھیلاؤ اب عالمی مشکل میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس حوالے سے شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے کہ صحت و سلامتی کا معاملہ بدستور اس پیچدہ اور باہم تنیدہ دنیا میں آباد انسانوں کو درپیش اہم ترین چیلنج ہے اور کورونا جیسا کوئی نامعلوم وائرس کسی بھی وقت انسانی سماج کو تباہ کن جنگ کی مانند اور شاید اس سے بھی کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
کچھ عشرے پہلے دنیا بھر کے سیاسی اور علمی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ عصر حاضر کی اس پیچیدہ دنیا میں سلامتی یا سیکورٹی کا معاملہ کثیرالجہتی شکل اختیار کر گیا ہے اور ماضی کی مانند محض فوجی اور عسکری دائرے تک محدود نہیں رہا ۔ بعد ازاں سلامتی کے اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی پہلووں پر بھی توجہ دی جانے لگی لیکن دنیا کے مختلف حصوں میں معیار زندگی میں آنے والی بلندی اور صحت و سلامتی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے ماہرین نے “ہیلتھ سیکورٹی” یا “صحت کی سلامتی” کے معاملے کو چنداں اہمیت نہیں دی۔
کورونا وائرس کے انکشاف اور وسیع پھیلاؤ نے ، جو تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود محض چند ہفتوں اور مہینوں میں ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے، اس بات میں تردید کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ہے کہ صحت کا شعبہ آج بھی اس پیچیدہ اور باہم تنیدہ دنیا کے باسیوں کے لیے لاتعداد چیلنجوں سے بھرا پڑا ہے اور کورونا جیسا کوئي بھی نا شناختہ وائرس انسانوں کے لیے جنگوں سے کہیں زیادہ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کورونا وائرس نے اپنی تمام تر تباہ کاریوں اور منفی اثرات کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر انسانی سماج کے سامنے اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں اور ملکوں کی سلامتی پوری قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑی ہوئي ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی فرد یا حکومت کتنی طاقتور کیوں نہ ہوجائے کورونا جیسے چیلنجوں پر جنہیں در حقیقت سپر چیلنج کہا جانا چاہیے، تنہا قابو نہیں پاسکتی۔
چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور پچھلے چند ماہ سے کورونا کے خلاف بھرپور جنگ میں جٹی ہوئی ہے، لیکن اس کی تمامتر تگ و دو اور تمہیدی اقدامات کے باوجود یہ موذی وائرس اس کی سرحدوں کوعبوکرکے اب ایک عالمی وبال بن گیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ جاپان، جنوبی کوریا اٹلی، فرانس اور جرمنی سے لیکر امریکہ تک سرایت کر گیا ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے اب تک یہ سوال مسلسل ذہنوں میں خلش پیدا کر رہا ہے ، کیا یہ ممکن ہے کہ اس معاملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ملوث ہو؟ جو بات اس شبہے کو تقویت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی سرکردگی میں قدامت پرستوں کے ٹولے نے وائٹ ہاؤس کا قبضہ حاصل کرتے ہی چین کے خلاف شدید ترین تجارتی جنگ شروع کردی تھی، کورونا وائرس نے بھی اسی تجارتی جنگ کے دوران سراٹھایا ہے اور اس موذی وائرس نے چین کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ کسی بھی طرح سے امریکہ کی تجارتی جنگ کے نقصانات سے کم نہیں ہے۔