کورونا وائرس کے حوالے سے ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انڈونیشیا میں کم از کم 2 ہزار 200 افراد کورونا وائرس کی علامات کے ساتھ موت کے منہ میں چلے گئے لیکن انہیں وائرس سے متاثرہ مریض کی حیثیت سے نہیں گنا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ نے ملک کے 34 صوبوں میں سے 16 کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
تین طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں وائرس سے متاثر ہو کر مرنے والوں کی تعداد دیے گئے 765 افراد سے کہیں زیادہ ہے۔
انڈونیشیا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی ٹیسٹنگ انتہائی کم ہو رہی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے دنیا کے چوتھے سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک کی اصل صورتحال کا اندازہ نہیں ہو پارہا۔
16 صوبوں کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2 ہزار 212 ایسے مریض ہلاک ہوئے جن میں کورونا وائرس کی علامات تھیں اور جب ان میں ایسی علامات کی کوئی واضح توجیہ پیش نہ کی جا سکی تو انڈونیشیا کی وزارت صحت نے انہیں ‘ایکرونائم پی ڈی پی’ کے مریض قرار دے دیا۔
یہ ڈیٹا ہسپتالوں، کلینکس اور مختلف عہدیداران کی جانب سے روزانہ یا ہفتہ وار بنیادوں پر صوبائی ایجنسیوں کو فراہم کیے جانے والے ڈیٹا سے حاصل کیا گیا جو بعد میں رائٹرز نے حاصل کر لیا۔
یہ 2 ہزار 200 اموات ملک میں کورونا وائرس کے سبب ہونے والی 765 اموات کے علاوہ ہیں جہاں ان 765 افراد میں وائرس کی تصدیق کی گئی تھی اور ان کی موت کی وجہ بھی اسی مرض کو بتایا گیا۔
26 کروڑ آبادی کے حامل ملک کے ان 16صوبوں میں ملک کی تین چوتھائی آبادی رہتی ہے۔
انڈونیشین حکومت کے کورونا ٹاسک فورس کے ایک سینئر رکن ویکو اڈیساسمیتو نے ‘رائٹرز’ کے اعداد و شمار سے اختلاف تو نہیں کیا تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے بھی انکار کردیا کہ کورونا وائرس کے کتنے مریضوں کو ایکرونائم پی ڈی پی کے مریض قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کے 19ہزار 897 مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ نہیں کیے جا سکے کیونکہ لیبارٹری میں زیادہ ٹیسٹ کرنے کی گنجائش نہیں ہے جبکہ کچھ لوگوں کے نمونوں کے تجزیے سے قبل ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں سیکڑوں یا ہزاروں ٹیسٹ کرنے ہیں تو وہ کس کو ترجیح دیں گے؟ وہ ان کو ترجیح دیتے ہیں جو ابھی زندہ ہیں۔
ایڈیساسمیتو انڈونیشیا کی کورونا ٹاسک فورس میں سب سے سینئر ماہر صحت ہیں اور صدر جوکو ویدودو کا پریس آفس اکثر انہی سے اس کے لیے رابطہ کرتا ہے۔
وزارت صحت کی حالیہ گائیڈ لائنز کے مطابق جن مریضوں کو سانس لینے میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان کو پی ڈی پی کا مریض تصور کیا جاتا ہے۔
جس شخص کو پی ڈی پی کا مریض قرار دیا جاتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نے کسی ایسے ملک یا انڈونیشیا میں کسی ایسے علاقے کا سفر کیا ہو جہاں کورونا وائرس کی موجودگی کے آثار رہے ہوں۔
یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے ایک ماہر صحت پانڈو ریونو نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ پی ڈی پی کے مریضوں میں سے اکثریت کی موت کورونا وائرس سے ہوئی اور ان مریضوں کی موت کی کوئی اور وجہ معلوم نہیں ہوئی۔
واضح رہے کہ جب جنوری اور فروری میں وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا تو کچھ حکومتی اکابرین نے اسے افراتفری پھیلانے کی سازش قرار دیا تھا جبکہ کچھ نے عوام کو نماز پڑھ کر دعا مانگنے اور گھریلو ٹوٹکے آزمانے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
اگر ایشیا کی بات کی جائے تو چین کے بعد انڈونیشیا میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔
صوبائی اعدادوشمار کے مطابق دارالحکومت جکارتہ میں مارچ میں تدفین میں 40 فیصد اضافہ ہوا جو جنوری 2018 کے بعد سے سب سے بڑا اضافہ ہے جبکہ شہر کے گورنر کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کورونا ہی اموات کی ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
27 اپریل 2020 تک انڈونیشیا میں کورونا وائرس کے 9 ہزار 96 کیس رپورٹ ہوئے تھے اور ہر 10 لاکھ لوگوں میں سے 210 کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جبکہ پڑوسی ملک آسٹریلیا اس سے 100 گنا رفتار سے ٹیسٹ کر رہا ہے اور ویتنام میں بھی انڈونیشیا کے مقابلے میں 10گنا تیزی سے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔
یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے ایک اور ماہر صحت ڈاکٹر ایوان آریا وان نے کہا کہ وائرس سے متاثرہ افراد اور اموات کی اصل حکومتی اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ہم ابھی تک انتہائی کم تعداد میں ٹیسٹ کرر ہے ہیں۔
صدر جوکو ویدود پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان کے سیاسی حریف وائرس سے شفافیت سے نہ نمٹنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے اس کی مستقل تردید کی جارہی ہے۔