حالیہ مہینوں کے دوران برطانیہ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکا میں کورونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آئی ہیں۔اب امریکی شہر نیویارک میں بھی کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا گیا ہے جو بہت تیزی سے وہاں پھیل رہی ہے اور اس میں ایسی میوٹیشن ہوئی ہے جو ویکسینز کی افادیت کو کمزور کرسکتی ہے۔یہ بات 2 تحقیقی رپورٹس میں دریافت کی گئی۔
اس نئی قسم کو بی 1526 کا نام دیا گیا ہے اور اس کے نمونے پہلی بار نومبر 2020 میں سامنے آئے تھے اور ہر 4 میں سے ایک وائرل سیکونس میں اسے دیکھا گیا تھا۔
اس نئی قسم پر ایک تحقیق آن لائن جاری کی گئی جبکہ دوسری کولمبیا یونیورسٹی کی تھی جسے رواں ہفتے شائع کیا گیا۔دونوں میں سے کوئی بھی تحیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس قسم کا پھیلاؤ حقیقی ہے۔
راک فیلر یونیورسٹی کے امیونولوجسٹ ماہر مائیکل نوسینز ویگ جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے کہا کہ یہ کوئی اچھی خبر نہیں، مگر اس بارے میں جاننا بہتر ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہم کچھ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ کیلیفورنیا میں تیزی سے پھیلنے والی قسم کے مقابلے میں نیویارک میں موجود قسم کے حوالے سے زیادہ فکرمند ہیں۔
امریکا میں پہلے ہی برطانیہ میں دریافت ہونے والی زیادہ متعدی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مارچ کے آخر تک وہ امریکا میں سب سے زیادہ عام قسم ہوگی۔
پہلی تحقیق کالٹیک نامی ادارے کی تھی جس میں بی 1526 کے میوٹیشنز کے لیے لاکھوں وائرل جینیاتی سیکونسز کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے کورونا وائرس کی 2 اقسام کو دیکھا جن میں سے ایک میں ای 484 کے میوٹیشن موجود تھی جو جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی، جس سے وائرس کو جزوی طور پر ویکسینز کے خلاف مدافعت کی صلاحیت ملتی ہے۔
دوسری قسم میں ایک میوٹیشن این 477 این موجود تھی جو انسانی خلیات کو جکڑنے کی وائرس کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہے۔
فروری کے وسط میں یہ دونوں 27 فیصد وائرل سیکونسز میں اکٹھی دیکھی گئیں یعنی بی 1526 میں یہ دونوں میوٹیشنز یکجا ہوگئیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے مختلف طریقہ کار کو اپنایا اور اپنے میڈیکل سینٹر میں آنے والے مریضوں کے 1142 نمونوں کا تجزیہ کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ 12 فیصد کووڈ 19 کے مریض اس نئی قسم سے متاثر ہوئے ہیں جس میں ای 484 کے میوٹیشن ہوئی تھی۔
جن مریضوں میں وائرس کی یہ سم تھی ان کی اوسط عمر 6 سال سے زائد تھی اور ان کے ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ دریافت کیا گیا۔
محقین نے دریافت کیا کہ اس قسم کے کیسز نیویارک کے مختلف علاقوں میں پھیل رہے ہیں اور یہ کوئی سنگل لہر نہیں۔
تحقیقی ٹیم برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم کے 6، برازیل میں دریافت ہونے والی قسم کے 2 اور جنوبی افریقہ میں دریافت قسم کے ایک کیس کو شناخت کیا۔
برازیل اور جنوبی افریقہ کی اقسام کے کیسز اس سے ققبل نیویارک میں رپورٹ نہیں ہوئے تھے۔
محققین نے اس حوالے سے نیویارک کے حکام اور سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کو بھی آگاہ کیا اور وہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کو مانیٹر کرنے کے لیے روانہ سو وائرل جینیاتی نمونوں کے سیکونس بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی اقسام کا اچانک پھیلنا فکرمندی کا باعث ہے۔
اسکریپس ریسرچ انسٹیٹوٹ کے وائرلوجسٹ کرسٹین اینڈرسن جو کسی تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے کہا کہ میوٹیشن ای 484 کے یا ایس 477 این کا نیویارک میں امتزاج فکرمندی کا باعث ہے جس پر نظررکھنے کی ضرورت ہے۔
ای 484 کے میوٹیشن دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھنے میں آئئی ہے جس سے وائرس کو ایک نمایاں سبقت حاصل ہوئی ہے۔
پین اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر اینڈریو ریڈ نے بتایا کہ وائرس کی اقسام کو بہت تیزی سے پھیلنے کا فائدہ حاصل ہے۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہکہ ای 484 کے میوٹیشن والی اقسام میں ویکسینز کی افادیت کی شرح کم ہوتی ہے اور یہ میوٹیشن ہر قسم کی اینٹی باڈیز کے افعال میں مداخلتت کرتی ہے۔
ڈاکٹر نوسینزویگ نے بتایا کہ کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد یا ویکسین استعمال کرنے والے افراد نئی اقسام کے خلاف مزاحت کرسکتے ہیں مگر ان میں کسی حد تک بیمار ہونے کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ افراد دیگر تک بھی وائرس کو منتقل کرسکتے ہیں جس سے اجتماعی مدافعت کے حصول میں تاخیر ہوسکتی ہے۔