واشنگٹن: عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے 17 کروڑ 60 لاکھ افراد غربت کا شکار ہوئے جن میں سے دو تہائی کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے سرکاری سطح پر دنیا میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ کرنے والے ممالک میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کا نمبر بالترتیب تیسرا، ساتواں اور دسواں رہا۔
تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اصل صورتحال اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے کیونکہ خطے میں ٹیسٹنگ کی شرح اب بھی انتہائی کم ہے۔امریکی میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق بھارت میں ٹیسٹنگ کی شرح امریکا کے مقابلے میں بیسواں حصہ ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں زیادہ سے زیادہ 7 لاکھ 50 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو سرکاری تعداد سے 12 گنا زیادہ ہیں۔پاکستان میں کم ٹیسٹنگ کے باوجود روزانہ کے اعداد و شمار آبادی کے حساب سے برطانیہ کے تقریباً برابر اور جرمنی سے 6 گنا زیادہ ہیں۔
امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) نے نشاندہی کی ہے کہ جنوبی ایشیا کی ’گنجان آباد، اور معاشی طور پر خطرناک آبادی کورونا وائرس سے لڑنے میں مزید پیچیدگیاں پیدا کررہی ہے‘۔
ایک اور امریکی تھنک ٹینک، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے نشاندہی کی ہے وبائی مرض ’سلامتی اور مؤثر صحت کی دیکھ بھال کرنے اور ضروری خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستوں کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہا ہے‘۔
یو ایس آئی پی نے مزید کہا کہ ’معیشت کو دوبارہ کھولنے کے حالیہ اقدامات سے کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے اور صحت اور گورننس کے نظام کو بھی زبردست خطرہ ہے‘۔ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے نشاندہی کی کہ اس بحران کا ’کمزور جمہوری اداروں اور معاشرتی جوڑ پر بھی اثر پڑا ہے اس کے علاوہ یہ معیشت پر بھی کافی دباؤ ڈالتا ہے‘۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، جس نے جمعہ کے روز بنگلہ دیش کے لیے تقریباً 73 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہنگامی قرضوں کی منظوری دی تھی، نے نشاندہی کی کہ اس بحران تک ملک کی معیشت سالانہ اوسطاً 7 فیصد کے قریب بڑھ رہی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ سال 2020 میں، 2019 کے مقابلے میں 6 فیصد پوائنٹس تک کم ہوں گے‘۔
اپریل کے آخر میں پاکستان کے لیے ایک ارب 38 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے خبردار کیا تھا کہ اس کی معیشت پر وبائی امراض کا اثر نمایاں ہوگا جس سے ‘بڑی مالی اور بیرونی مالی معاونت کی ضروریات جنم لیں گی‘۔
جمعرات کے روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس بحران سے پاکستان کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو 3 فیصد کا نقصان ہوسکتا ہے جس کے حوالے سے توقع کی جارہی تھی کہ اس میں 3 فیصد اضافہ ہوگا تاہم اب اس میں منفی 0.4 فیصد تک کی کمی واقع ہوگی۔چائلڈ لیبر بڑھنے کا خطرہ
رواں ہفتے جاری ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کی نئی عالمی اقتصادی امکانات کی رپورٹ میں ’بھارت کے لیے خاص طور پر سنجیدہ تصویر پیش کی گئی تھی جو دنیا کے زیادہ تر غریب افراد کا گھر ہے‘۔
بھارت کی 2.1 فیصد کی جی ڈی پی میں فی کس نمو کی پیش گوئی تھی۔عالمی بینک کے مطابق آبادی کی شرح نمو ایک فیصد ہونے کے ساتھ ’یہ غربت کے خاتمے میں پائیدار کمی کے لیے مشکل صورتحال ہے‘۔
تاہم سب سے خطرناک پیش گوئی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور یونیسیف کی طرف سے سامنے آئی جس نے جمعہ کے روز ایک رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ اب مزید لاکھوں بچوں کو چائلڈ لیبر (بچوں کی مزدوری) میں دھکیلے جانے کا خطرہ ہے جو جنوبی ایشیا کا ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن نے کچی آبادیوں میں رہنے والے اور غیر رسمی معیشت میں کام کرنے والے ایک ارب لوگوں کے لیے معاش کا نظام متاثر کردیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ترسیلات زر اور کاروباری ناکامیوں سے مزدوروں کی مانگ میں مزید کمی آئے گی، کم اجرت ہوگی اور ملازمتوں کا خاتمہ ہوگا اور نتیجتاً ’غربت میں مبتلا افراد کی تعداد 4 کروڑ سے 6 کروڑ تک بڑھ سکتی ہے‘۔
رپورٹ کے مطابق ’غربت کے ساتھ چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوتا ہے اور تمام گھرانے زندہ رہنے کے لیے ہر دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، غربت میں ایک فیصد اضافے کے نتیجے میں چائلڈ لیبر میں کم از کم 0.7 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘۔