تہذیب وادب کے شہر لکھنؤ میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔ مشرقی تہذیب کی جگہ تیزی سے مغربی تہذیب لے رہی ہے۔ قدیم وتاریخی عمارتوں کی جگہ بلند وبالا عمارتیں ، فلک بوس شاپنگ مال اور جدید ترین سہویات سے آراستہ ہوٹل قائم ہوچکے ہیں۔
تبدیلی حالاں کہ ایک فطری عمل ہے پھر بھی تاریخی ، روایتی ، تہذیبی وراثتوں اور اخلاقی قدروں کے انہدام وزوال اور اس میں تبدیلی سے دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے۔منشی نول کشورکا تاریخی پریس اور دکان ، نسیم انہونوی کا نسیم بک ڈپو، والی آسی کا مکتبہ دین وادب اور عابد سہیل کا نصرت پبلشر زبند ہوچکے ہیں۔ ان کی جگہ دوسرے کاروبار شروع ہوچکے ہیں۔
ادب اور لکھنوی تہذیب کی نمائندگی کیلئے بس اب دانش محل ہی رہ گیاہے۔ ’شام اودھ‘ کی رونق بھلے ہی پھیکی بڑچکی ہو، لیکن دانش محل میں ہونے والی ’شام اودھ‘ کی میٹنگ آج بھی حسب سابق جاری ہے۔ لوگ اسے ’گھر سے دور ایک گھر‘ قرار دیتے ہیں۔ دانش محل کو کتابوں کا ’تاج محل‘ اور دانشوروں کا ’خواب محل ‘کہاجائے تو شاید بیجانہ ہوگا۔
شہر نگاراں میں دانش محل کا قیام 1942میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبد الحق ، علامہ سیدسلیمان ندوی اور دیگر سر کردہ شخصیات کی یہ خواہش تھی کہ لکھنؤ میں کسی مرکزی جگہ پر ایک ایسا کتاب گھر ہو جہاں ادبی وعلمی کتابیں دستیاب ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادباء شعراء ، صحافی اور دانشور آکر بیٹھ سکیں۔
دراصل شہر میں مذکورہ لوگوں کے بیٹھنے کے لئے دو جگہیں تھیں۔ ایک کافی ہاؤس ، دوسری شہرکے مختلف علاقوں میں واقع چائے خانے۔ یہ دونوں مقامات ان برگزیدہ ہستیوں کے شایانِ شان نہیں تھے۔ اسی لئے وہ فکر مند تھے کہ کوئی ایسی جگہ ضروری ہے جہاں کاماحول پر سکون او پاکیزہ ہو۔ جہاں دانشور نہ صرف ایک دوسرے سے مل سکیں بلکہ بیٹھ کر سنجیدہ ،علمی وادبی گفتگو کرسکیں۔ چھوٹی موٹی ادبی تقریب منعقد کر سکیں۔
ان ممتاز شخصیات کے غور وفکر اور تبادلہ خیالات کے بعد قرعہ فال محمد نسیم کے نام نکلا اور انھوں نے دانش محل کے قیام کابیڑا اٹھایا۔ وہی فرشتہ صفت محمد نسیم جن کے پاس مولوی عبدالحق اور علامہ سید سلیمان ندوی جیسے لوگ بیٹھ کر سکون محسوس کرتے تھے اور جوتا عمر ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اور دانشوروں کے مرکز نظر رہے۔
پھر ایک دن وہ بھی آگیا کہ مخصوص فکر ونظر اورروایات کا حامل دانش محل قائم ہوگیا اور اس طرح اردو کے ممتاز علماء اور ادباء کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ نسیم صاحب کے اس ادارے کا افتتاح مولوی عبد الحق نے کیا۔ افتتاحی تقریب میں مولانا آزاد سجانی ، سید ہاشمی فیروز آبادی ، مولوی بشیر الدین، مولانا احمد الدین، مولانا ظفر الملک ، پروفیسر احتشام حسین اور ڈاکٹر عبادت بریلوی خاص طور سے موجود تھے۔
ضمیر مینشن میں واقع اس ادارے کا قیام اصلاً1939میں عمل میں آیاتھا۔ اس وقت یہ مکتبہ کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا تھا۔ پھر 1942میں مولوی عبد الحق کے مشورے پر نسیم صاحب نے ایجنسی کو کتابوں کی دکان میں تبدیل کر دیا اور اس کا نام رکھا ’دانش محل ‘۔ دانش محل کا نام اپنی خصوصیات اور روایات کی وجہ سے اردو زبان وادب اور تہذیب کی تاریخ میں درج ہوچکاہے۔
دانش محل بر صغیر ہندوپاک کے علاوہ سرے ممالک جیسے برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، امریکہ ، روم ، مصر، ایران ، عرب، عراق، شام اور انڈونیشیا وغیرہ میں بھی کافی مقبول ہے۔ اس کی مقبولیت کی وجہ نسیم صاحب کی ایمانداری اور جانفشانی ہے۔ اگر کہیں سے کتاب کا آرڈر آجاتا تو اسے فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ۔ اگر وہ کتاب ان کے پاس نہ ہوتی تو دوسری جگہ سے منگا کر بھیجتے۔ اس میں ان کی صرف کاروباری ذہنیت نہیں کار فرماہوتی بلکہ اسے ایک جذبے اور مشن کے تحت انجام دیتے۔
لندن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر رالف رسل نے 1965میں دانش محل اور نسیم صاحب کے بارے میں لکھا تھا:
”Not only is Danish Mahal well-stocked and well-arranged, Naseem Ahmad’s resourcefulness in obtaining and supplying rare books is something to arouse both wonder and admiration…Danish Mahal is institution, a cultural Centre for all who love Urdu and its literature. Long may it continue to remain so”!
دانش محل کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک ’ بزم دانشوراں ‘ بھی قائم کی گئی۔ پروفیسر نورالحسن ہاشمی، حامد اللہ افسر اور فرقت کا کوری اس کے عہدے داران واراکین منتخب کے گئے۔ بزم کے تحت ہفتہ وار جلسے ہوتے تھے ،جس میں مقامی وبیرونی ادباء دانشور ، اپنی تخلیقات اور مقالے پڑھتے تھے۔ دانش محل اور بزم دانشوراں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا حسرت موہانی ، احسان دانش، ظفرعمر ، اختراور ینوی، مجنوں گور کھپوری، اختر انصاری ، حفیظ سید ، ڈاکٹر اعجاز حسین ،ساغر نظامی، پروفیسررالف رسل وغیرہ شامل تھے۔
دانش محل ایک ادارہ ہی نہیں ایک تہذیب کا نام ہے۔ قدیم فن ِتعمیر پر مشتمل ایک کشادہ اور ہال نماو سیع وعریض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئی ہیں۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء ، ادباء شعراء اور دانشوروں کی تصویریں آویزاں ہیں ، جن پر ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی درج ہے۔ اس سلیقے مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتاہے۔
جن بڑی شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ان میں شبلی ، مومن میر، قاضی عبد الغفار ، فرحت اللہ بیگ، پنڈت رتن ناتھ سرشار، اکبر الہ آبادی ، امیر خسرو، اصغر گونڈوی ، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ، نیاز فتح پوری، مولوی عبدالحق ، میر انیس ، محسن کاکوری ، عزیز لکھنوی ، غالب ، نظیراکبر آبادی ، علامہ سید سلیمان ندوی، راشد الخیری ، جوش ملیح آبادی ، ڈپٹی نذیر احمد ، نور الحسن نیر کاکوری ، آتش ، امیر مینائی، داغ اور حالی شامل ہیں۔
مالک دکان کی کرسی کے سامنے ایک برا ساکاؤ نٹرہے۔ اس کے آگے آمنے سامنے دوصوفے پڑے ہیں۔ دانشور آکر انہیں صوفوں پر بیٹھتے ہیں اور آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ان کو تمام کتابیں بھی نظر آتی ہیں اور جوکتابیں خرید نا چاہتے ہیں وہ کتابیں خریدتے ہیں۔ ویسے یہاں بیٹھنے کے لئے کتاب اور رسائل خرید نے کی شرط نہیں ہے۔ لوگ گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ دکان کے مالک محمد نعیم اور اعزازی طورپر ان کے کام میں تعاون کرنے والے منظور پروانہ آنے والے لوگوں کی ’چائے وائے‘ سے ضیافت بھی کرتے رہتے ہیں۔
اگر لوگ زیادہ ہوجاتے ہیں توکرسیا ںلگادی جاتی ہیں۔ یہاں کچھ لوگ تقریباً روزآنہ آتے ہیں جب کہ زیادہ تر لوگ وقفے وقفے سے۔ باہر سے کوئی شاعر، ادیب ، صحافی یادانشور لکھنؤ آتاہے وہ دانش محل ضرور آتاہے۔ جیسے کوئی دوسرے ملک سے ہندوستان آتاہے تو وہ تاج محل دیکھنے خاص طور سے جاتاہے۔ دانش محل کو اطلاعات مرکز کی بھی حیثیت حاصل ہے۔
اردو دنیامیںرونما ہونے والے بہت سے واقعات اور تبدیل ہوتے حالات کی اطلاع یہاں سے مل جاتی ہے۔ چوں کہ یہاں ملک وبیرون ِملک سے محبانِ اردو آتے رہتے ہیں اور بہت سے منصوبوں کے تانے بانے یہاں کے صوفوں پر بیٹھ کر بنے جاتے ہیں اس وجہ سے بہت سی ’ فرسٹ ہینڈانفار میشن‘یہیں سے ملتی ہے۔
دانش محل برابر آنے والے ممتاز لوگوں میں مولانا عبد لماجد دریابادی ، جوش ملح آبادی ، اختر علی تلہری ، پروفیسر آل احمد سرور، پر فیسر احتشام حسین ، ڈاکٹر اعجاز حسین ، پروفیسر عنوان چشتی، ڈاکٹر شجاعت علی سندی ، مسیح الحسن رضوی، منظر سلیم، ڈاکٹر اختر بستوی، پروفیسر احمر لاری ، ڈاکٹرافغان اللہ خاں ، مقبول احمد لاری ، پروفیسر شاہ عبد السلام ، مولانا شمس تبریز خاں ،قاری محمد علیم الہ آبادی ، تسنیم فاروقی ، پروفیسر شارب ردولوی ، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، احمد ابراہیم علوی، عابد سہیل ، رام لعل ،بشیشر پردیب ، مسرور جہاں ، شاہ نواز قریشی ، ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی، چودھری شرف الدین ، بشیر فاروقی ، پروفیسر محمودالحسن ، عبد الجلیل متین میاں فرنگی محلی، پروفیسر خان محمد عاطف ، منوررانا، رئیس انصاری ، عبد السلام صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ نئی نسل کے ادباء ، شعرا،صحافی ، دانشور اور دیگرمحبانِ اردو بھی آتے رہتے ہیں۔
دانش محل کے بانی محمد نسیم (مرحوم ) 25دسمبر 1920کو پیدا ہوئے۔ آباء واجد اد کا تعلق بہار سے تھا، مگر نسیم صاحب نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ میںہی گزاری ۔ ان کے والد کا نام محمد یاسین تھا۔ نسیم صاحب بڑے وضع داراور نستعلیق قسم کے آدمی تھے۔ پرانی قدروں اور قدیم روایات کے امین تھے۔ لیکن عصر حاضر کی برکات کا بھی خیر مقدم کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ’ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔‘ واقعی کتابیںنسیم صاحب کی بھی بہترین دوست تھیں۔ لیکن اس کادوسرا پہلو بھی تھا۔ نسیم صاحب کتابوں کے بھی بہترین دوست تھے۔
وہ کتابوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور بڑے سلیقے سے دکان میں رکھتے تھے۔ دانش محل آنے والے لوگوں سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بڑی نرمی سے ان سے گفتگو کرتے تھے۔ تشنگانِ علم کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کو مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔ تعجب ہوتاہے کہ ایسے ماحول میں جہاں دوشاعر سکون سے نہیں رہ پاتے اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، یہاں آنے والے مختلف الخیال ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اور دانشوروں کو کیسے سنبھال کر رکھتے تھے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں میں سے کسی بھی شخص کے منھ سے کبھی نسیم صاحب کی برائی نہیں سنی گئی۔ بلکہ ہر شخص ان کی تعریف میںرطب اللسان نظر آتاہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔ نسیم صاحب کی ایمانداری اور سادگی کولوگ آج بھی یادکرتے ہیں۔
نسیم صاحب خود بھی ادیب تھے لیکن اس کا اظہار کبھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے کئی مضامین رسائل وجرائد میں شائع ہوئے اور متعد دتقاریر ریڈیوسے نشر ہوئیں۔ پروفیسر احتشام حسین پر نسیم صاحب کا مضمون کافی پسند کیا گیا اور موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا۔ وہ مولوی گنج پر ایک کتاب لکھ رہے تھے لیکن علالت کے سبب یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔
مختلف صفات وکمالات کے مالک اور علی گڑھ کی شیروانی ، ٹوپی اور پاجامہ زیب تن کرنے والے نسیم صاحب بالآخر 8جون 2012کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے انتقال پر پوری اردو دنیا سوگوار ہوگئی۔ یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے شخص تھے جن کی موت پر واقعی زمانے نے افسوس کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد نعیم نے دانش محل کی ذمہ داری سنبھالی ۔ شروع میں انھیں تھوڑی دشواری ضرور ہوئی لیکن بعد میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ اس معاملے میں نسیم صاحب کے بہی خواہوں اور ہمدردوں نے بھی ان کی رہنمائی کی ۔
وہ بڑے نظم وضبط کے ساتھ دکان چلارہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے والد مرحوم کی اقداروروایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے والد کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے2005میں اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے اپنا بزنس ختم کردیا اور ان کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کے ذوق وشوق کو پروان چڑھایا۔ 2012میں انتقال کے بعد مکمل طور سے ان کے کاموں کی ذمہ داری سنبھال لی۔
شہر لکھنؤ کے قلب اور انتہائی کارو باری علاقے امین آباد میں کافی کشادہ جگہ میں واقع دانش محل کے موجودہ مالک اورمحمد نسیم مرحوم کے بیٹے محمد نعیم اگر چاہتے تو اس جگہ زمانے کے تقاضے کے مطابق منفعت بخش کا روبار کرکے مالا مال ہوسکتے تھے ،لیکن ان کو مادیت سے زیادہ روحانیت عزیز ہے۔ قدروں کی پاسداری، روایتوں کی پاسبانی اور دانشوروں کی قدردانی ان کے نزدیک کافی اہم ہے۔ وہ اپنے والد محمد نسیم مرحوم کی قائم کردہ روایات کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:
’’بہت سے لوگوںنے طرح طرح کے مشورے دیئے، دیگر منفعت بخش کا روبار کی جانب اشارے کئے ، لیکن ہم نے روایت کے مطابق صرف ادبی کتابوں کے ہی کاروبار کو جاری رکھا۔ ہماری اولین ترجیح والد صاحب کے طرز عمل اور دانش محل کی روایت کو برقرار رکھناہے۔ والد صاحب نے بڑی قربانیوں سے دانش محل کو’دانش محل‘ بنایاہے۔ ہم ا ن کے خوابوں کے شیش محل کو یوں ہی چکنا چور نہیں ہونے دیں گے۔ بلکہ ہماری کوشش ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے اور اور ان کی علمی ، ادبی اور تہذیبی وراثت کا تحفظ کیا جائے‘‘۔
اس سلسلے میں دانش محل کو اپنی اعزاز ی خدمات دینے والے منظور پر وانہ کہتے ہیں:
’’لیکن ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر اردو کے تمام ادارے کیوں بند ہوگئے؟ اگر محبان اردو ان کی سرپرستی کرتے اوروہاں نفع بخش کاروبار ہوتا تو کیا تب بھی وہ ادارے بند ہوجاتے ؟ اس لئے اردو قارئین کے لئے یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ انھیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ صرف کف ِ افسوس ملنے سے کچھ ہونے والانہیں‘‘۔
دانش محل کے موجودہ مالک محمد نعیم کو تھوڑا مالی نقصان ضرور ہورہاہے لیکن اردو دنیا کوان سے بڑا فائدہ ہورہاہے۔ آج بھی دانش محل لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس کی تہذیبی قدریں کسی حدتک بر قرار ہیں۔ یہاں ہونے والی علمی وادبی بحث سے لوگوں کو کافی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس طرح اس کی حیثیت ایک درس گاہ کی بھی ہے۔
آج بھی لوگ یہاں آکر دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں ۔ یہاں آکر لوگوں کو کافی سکون محسوس ہوتاہے۔ انھیں خصوصیات کی وجہ سے پروفیسر احتشام حسین دانش محل کو ’ دارالقرار‘ اور ’ دارالا مان‘ کہا کرتے تھے۔ اس نظریئے سے دیکھا جائے تو محمد نعیم بہت زیادہ گھاٹے میں نہیں ہیں۔ بلکہ ’خسارے ‘ میں ’منافعے‘ کا کاروبار کررہے ہیں۔ ایسے ہی موقع کیلئے مفتی صدر الدین آزردہ نے کہاہے ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں …اک جان کازیاں ہے سوایساز یاں نہیں