لکھنؤ:ملک بھر کے میڈیکل کالجوں میں نیشنل ایلیجیبلٹی انٹرینس ٹیسٹ (نیٹ) کو نافذ کرنے کے فیصلے پر اقلیتوں نے سخت غصہ کا اظہار کیاہے ۔ اقلیتوں کا خیال ہے کہ نیٹ نافذ کرنے کا فیصلہ آئین میں اقلیتوں کو ملے حقوق کی پامالی ہے ۔ ۲۰۱۱ میں ایم سی آئی نے ملک بھر کے سرکاری اور نجی میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس ، بی ڈی ایس اور پوسٹ گریجویٹ کورسیز میں داخلے کےلئے کامن ٹیسٹ نیٹ کا اعلانیہ جاری کیاتھا ۔ اس کے خلاف داخل عرضی پر سپریم کو رٹ نے ۱۸جولائی ۲۰۱۳ میں اس ٹیسٹ کو رد کرکے نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کےلئے کالج سطح پر ٹیسٹ کی اجازت دی تھی ۔ اس فیصلے کے خلاف ایم سی آئی کی ریویو پٹیشن پر عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے از سر نو سماعت کا فیصلہ کیاہے ۔
واضح رہے کہ دستورہند کے دفعہ ۳۰ میں اقلیتوں کو یہ حقوق دیئے گئے ہیں کہ وہ اپنی تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں اور آئین کی دفعہ ۳۰ کے پیرا۵۰ میں یہ واضح طور سے ذکر ہے کہ اقلیتی ادارے اپنی پسند کے طلبا کا داخلہ لینے کےلئے آزاد ہیں ۔
واضح رہے کہ ۳۔۲۰۰۲ میں سپریم کورٹ کی ۱۱ رکنی بینچ بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ اقلیتی اداروں کو اپنی سپند کے تعلیمی ادارے کھولنے ، انہیں چلانے کے ساتھ ساتھ اپنے انتخابی عمل کے ذریعہ طلباء کو منتخب کرنے کا پورا اختیار ہے ۔ اقلیتوں خاص طور سے مسلم مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کو اقلیتی حقوق کی پامالی بتاتے ہوئے آئین کے ادا کرتا آزادی کی خلاف ورزی بتایاہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر اور ممتاز عالم مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نے کہا کہ یہ فیصلہ اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ہے۔ اقلیتوں پر اس فیصلہ کا منفی اثر پڑے گا۔ ڈاکٹر صادق نے کہا کہ فیصلہ آئین میں اقلیتوں کو عطا کردہ حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آئندہ جلسہ میں اس معاملہ کو نمایاں طور سے اٹھایاجائے گا۔
ٹیلہ والی مسجد کے امام مولانا فضل الرحمن واعظی ندوی نے کہا کہ آئین بنانے والوں نے مختلف مذاہب اور فرقوں کے ماننے والوں کو ذہن میں رکھ کر آئین سازی کی۔ کچھ عرصہ سے محسوس کیاجارہا ہے کہ آئین پر زعفرانی رنگ حاوی ہو رہا ہے۔ پرسنل لاء میں غیر ضرور مداخلت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح اقلیتوں کو حاصل تعلیمی ادارہ جات چلانے کے حق کی پامالی کی جا رہی ہے۔ مولانا نے کہا کہ وہ اس معاملہ میں وکیلوں کی رائے لیںگے اور ضرورت پڑنے پر اپیل کریںگے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری اور بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ کے امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی نے اسے حقوق کی پامالی بتاتے ہوئے کہا کہ یہ سپریم کورٹ نے کیا ہے تو اس کا حل بھی عدالت کے پاس ہوگا۔ دستور کی دفعہ ۳۰ میں اقلیتوں کو یہ اختیار دیئے گئے ہیں کہ اقلیت اپنے حساب سے ادارے چلا سکتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ فیصلہ دستور کی دفعہ۳۰کے خلاف ہے اور حکومت کو اسے بدلنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی سطح پر اس بات کو مضبوطی سے اٹھایاجانا چاہئے۔
امام عید گاہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے اس کے فیصلہ کا احترام کرنا چاہئے۔ ہمارا خیال ہے عدالت عظمیٰ آئین کی منشا کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے گی۔آئین کی دفعہ۳۰میں اقلیتوں کو حاصل حقوق کوئی ہم سے نہیں چھین نہیں سکتا۔ مولانا نے کہا کہ یہ معاملہ تعلیم اور اقلیتی اداروں سے وابستہ ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آئندہ ۱۶؍اپریل کو ہونے والےجلسہ میں اس معاملہ پر بحث کرائی جائے گی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی معاملہ پر بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقلیتی اداروں کو آزادی سے چلانے کی آزادی ملنا چاہئے۔
عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پرنسپل مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے کہا کہ جب آئین نے ہمیں آزادی دی ہے تو اسے ختم نہیں کیاجانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں لوگوں کو بیدار کیاجاناچاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں اقلیتوں کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جانا چاہئے۔ واضح طور سے اس بات کا ذکر دستور میں ہے تو اس میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہونا چاہئے۔ مولانا نے مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ عقل کی کمی اور جلد بازی میں غلط فیصلے کئے جا رہے ہیں۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پراکٹر مولانا سلمان حسینی ندوی نے کہا کہ آئین میں اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق انہیں ملنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا مقابلہ کرنے کیلئے قانون کا سہارا لیاجانا چاہئے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے فیصلوں کے خلاف اقلیتوں کو متحد ہونا چاہئے۔ مولانا نے کہا کہ پہلے قانونی پہلو دیکھیں پھر میڈیا کے ذریعہ عوام کے درمیان اپنی بات پہنچائیں۔ منظم ہو کر مضبوطی کے ساتھ تحریک چلائی جاناچاہئے۔
لکھنؤ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر راجندر سنگھ بگا نے اپنے بیان میں کہا کہ اقلیتوں کو عطا کردہ حقوق کی پامالی نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے مرکز کی بی جے پی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت غلط پالیسیوں پر چل رہی ہے۔حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت جو کام کرنا چاہتی ہے اسے کرنے کیلئے عدالت کو بھی مہرہ بنانے سے نہیں چوک رہی ہے۔عدالت کو ذریعہ بنا کر حکومت عدالت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کا کام کر رہی ہے۔ آئین نے اقلیتوں کو جو حقوق دیئے ہیںان کی پامالی ہو رہی ہے۔
کیتھولک ڈیوسسے سوسائٹی کے چانسلر اور ترجمان فادر ڈونالڈ ڈیسوزا نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر اس حکم سے اقلیتی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو ہم اس حکم کے خلاف اپیل ضرور کریںگے۔ کسی بھی طرح آئین میں عطا کردہ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی نہیں ہونا چاہئے اور ایسی پامالی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔
اسمبلی فارلیور چرچ کے ترجمان
نے فیصلہ کی سخت مذمت کی۔ فادر نے کہا کہ یہ کیسا فیصلہ ہے کہ ہم اپنے ادارہ میں اپنے ہی بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے۔ یہ فیصلہ پوری طرح سے آئین میں اقلیتوں کو عطا کردہ حقوق کی پامالی ہے۔ ہم اس فیصلہ کی عیسائی سماج کی جانب سے مذمت کرتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلہ قابل قبول نہیں ہیں۔
آل انڈیا دگمبر جین مہا سبھا کے صدر نرمل کمار جین سیٹھی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی اداروں میں کسی بھی قسم کی مداخلت قابل مذمت ہے۔ کیونکہ ہمیں یہ حقوق آئین ہند سے حاصل ہیں۔ ہم اپنے بچے اپنے ذریعہ قائم کردہ اداروں میں اگر نہیں پڑھائیںگے تو ہم ترقی کے اس دور میں پیچھے چھوٹ جائیںگے۔ لہٰذا ہم اپنے حقوق میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریںگے۔