جنرل مارک ملی نے کہا کہ پناہ گاہ کے حوالے سے پاکستان سے مؤثر طریقے سے نہ نمٹنا بڑا اسٹریٹجک مسئلہ ہے — فائل فوٹو / رائٹرز
امریکی فوج کے سربراہ نے قانون سازوں کو آگاہ کیا ہے کہ افغانستان میں شکست 20 سال کے غلط فیصلوں اور خراب منصوبہ بندی کا مجموعی نتیجہ ہے اور یہ پاکستان میں طالبان کی مبینہ پناہ گاہ سمیت کسی ایک وجہ سے نہیں ہوا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں اپنے حالیہ بیان میں امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداران نے ٹرمپ انتظامیہ کے طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر بھی وسط اگست میں کابل کے سقوط کا الزام لگایا۔
تاہم امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک اے ملی نے افغانستان میں 20 سال تک امریکی موجودگی کے دوران طالبان کی پاکستان فرار ہونے کی مبینہ قابلیت کو ایک بڑا اسٹریٹجک مسئلہ قرار دیا۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘پناہ گاہ کے حوالے سے پاکستان سے مؤثر طریقے سے نہ نمٹنا بڑا اسٹریٹجک مسئلہ ہے جسے ہمیں حقیقی معنوں میں حل کرنے کی ضرورت ہے’۔
جنرل مارک ملی نے یہی مطالبہ منگل کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ ‘ہمیں پاکستان کے بطور پناہ گاہ کردار کا بخوبی جائزہ لینے کی ضرورت ہے’۔
تاہم بدھ کو سماعت میں ان کی توجہ امریکی شکست کی اصل وجہ تلاش کرنے کی طرف تھی اور انہوں نے قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ کسی ایک وجہ کے بجائے 20 سالوں میں لیے گئے تمام فیصلوں پر غور کریں۔
جنرل مارک ملی نے کہا کہ ‘میرا اندازہ ہے کہ یہ 20 سالہ جنگ ہے اور یہ 20 دنوں یا 20 ماہ میں نہیں ہاری گئی ہے، یہ گزشتہ سالوں میں لیے گئے متعدد فیصلوں کا مجموعی نتیجہ ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جیسے جنگ جو ہاری جاچکی ہو، جیسا کہ ہوا ہے، تو یقینی طور پر آخر میں حالت ہماری خواہش سے بلکل مختلف ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘لہٰذا جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہاں کئی عوامل ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ لگانا ہوگا، یہاں بہت سارے سبق سیکھے گئے ہیں’۔
امریکی فوجی سربراہ نے مختلف امریکی انتظامیہ کے چند بڑے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک یہ فیصلے شکست کا باعث بنے، ان میں اسامہ بن لادن کو تورا بورا سے فرار ہونے دینا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم جانتے تھے کہ وہ کہاں ہے، وہ چند ہزار میٹر کی دوری پر تھا، ہم اسے وہیں ختم کر سکتے تھے’۔ان کے مطابق ایک اور غلطی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں افغانستان سے عراق کی جانب سے توجہ منتقل کرنا تھی۔
جنرل مارک ملی نے کہا کہ ‘چند فوجیوں کے علاوہ دیگر کو افغانستان سے نکالنا بڑا اسٹریٹجک فیصلہ تھا، انٹیلی جنس مشیروں کو وہاں سے ہٹایا گیا جس سے ہم نے خود کو یہ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا کہ جنگ کیسے چل رہی ہے’۔
بدھ کی پوری سماعت کے دوران ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس اس بات پر جھگڑتے رہے کہ افغانستان میں امریکا کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکینزی نے اگست میں سقوط کابل کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ معاہدے سے جوڑا، جس میں امریکی افواج کے مکمل انخلا کا وعدہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب ڈیڈلائن قریب آنے پر امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے کم کردی گئی تب ہی امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت لڑکھڑانا شروع ہوگئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘دوحہ معاہدے نے افغان حکومت اور اس کی فوج پر بہت منفی اثر ڈالا تھا لیکن ہم نے تاریخ دے دی تھی کہ ہم کب ملک سے جائیں گے اور کب انہیں امداد کے خاتمے کی امید رکھنی چاہیے’۔