سیاسی رہنما ملکارجن کھرگے اپوزیشن جماعت کانگریس کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ 24سالوں میں یہ پہلا موقع ہےجب گاندھی خاندان نےصدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا ہے۔میڈیا کےمطابق کانگریس صدارتی انتخاب کیلئے ووٹوں کی گنتی آج ہوئی۔
پارٹی صدارتی عہدے کے امیدوار ملکارجن کھرگے کو 7ہزار سے زائد جب کہ ان کے مقابلےمیں ششی تھرور کو ایک ہزار سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
ملکارجن کھڑگے نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پارٹی کے ادے پور کیمپ میں منظور ہونے والی تمام تجاویز کو نافذ کریں گے۔ ان تجاویز میں یہ تھا کہ پارٹی کے آدھے عہدیدار 50 سال سے کم عمر کے لوگ ہوں گے۔
ملکارجن کھڑگے کو انڈین نیشنل کانگریس کا نیا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ کھڑ گے نے یہاں تک کا سفر اپنی محنت کے دم پر طے کیا ہے، وہ بدھ مت کے پیروکار ہیں اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ وہ کنڑ کے علاوہ مراٹھی، اردو، تلگو اور ہندی جیسی 6 دیگر زبانوں کے بھی ماہر ہیں۔
کھڑگے کرناٹک کے دوسرے لیڈر ہیں جو کانگریس کے قومی صدر کے عہدے تک پہنچے ہیں۔ ان سے پہلے کرناٹک کے ایس نجالنگپا 1968 میں پارٹی کے صدر بنے تھے۔ اس کے علاوہ کھڑگے جگجیون رام کے بعد پارٹی کے دوسرے دلت صدر بھی ہیں۔
ملکارجن کھڑگے ہاکی، فٹ بال اور کبڈی کے کھلاڑی رہے ہیں اور انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں مرکزی وزیر محنت رہ چکے ہیں۔ کرناٹک میں کھڑگے کو ’سولیلادا سردارا ‘ یعنی ناقابل شکست جنگجو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کھڑگے نے 2019 میں الیکشن ہارنے سے پہلے اپنے 50 سالہ سیاسی کیریئر میں کوئی الیکشن نہیں ہارا۔ انہوں نے کرناٹک قانون ساز اسمبلی میں لگاتار 12 انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
کرناٹک کی سیاست میں کم از کم تین مواقع ایسے آئے جب ملکارجن کھڑگے تقریباً ریاست کے وزیر اعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے۔ یوں بھی وہ عہدے کے پیچھے بھاگنے والے لیڈر نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر بار ان کی جگہ کسی اور کو ریاست کی کمان سونپی گئی، تاہم انہوں نے اس فیصلے کو عاجزی سے قبول کیا اور پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ انہوں نے کبھی کھلے عام اپنی ناراضگی کا اظہار تک نہیں کیا۔
2013 میں کھڑگے کو کرناٹک کانگریس لیجسلیچر پارٹی کے لیڈر کے لیے خفیہ رائے شماری میں شکست ہوئی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے لیکن اس الیکشن کے بعد سے آج تک کوئی نہیں جانتا ہے کہ کھڑگے اس الیکشن میں کتنے ووٹوں سے ہارے یا سدا رمیا کتنے ووٹوں سے جیتے۔
کھڑگے کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالیں تو کچھ دلچسپ کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سات سال کی عمر میں کھڑگے کو اپنے والد کے ساتھ ضلع بیدر میں اپنے گاؤں کا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ نظام حیدرآباد کی نجی فوج نے گاؤں پر حملہ کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کھڑگے کے والد ایک زرعی مزدور تھے۔ جب وہ کھیت سے گھر واپس آرہے تھے تو دیکھا کہ ان کے گھر کو آگ لگ گئی ہے۔ اس افسوسناک واقعے میں کھڑگے کی ماں اور بہن کی موت ہوگئی تھی۔
اس واقعے کے بعد کھڑگے نے پڑوسی ضلع کلبرگی میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ کلبرگی میں ’ایم ایس کے‘ مل میں قانونی مشیر بنے اور 1969 میں متحدہ مزدور سنگھ کے رہنما منتخب ہوئے۔ اسی سال وہ کانگریس میں شامل ہوئے اور کلبرگی سٹی یونٹ کے صدر بنائے گئے۔
ملکارجن کھڑگے نے 1972 میں انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور ضلع کی گرومیتکل ریزرو سیٹ سے الیکشن لڑا۔ وہ 2008 تک اس سیٹ سے منتخب ہوتے رہے جب تک یہ سیٹ محفوظ رہی۔ اس کے بعد کھڑگے نے چت پور کو اپنا حلقہ بنایا۔ فی الحال ان کے بیٹے پریانک کھڑگے اس سیٹ سے ایم ایل اے ہیں۔
2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ایسے امیدوار کی تلاش میں تھی جو کرناٹک میں تیزی سے ابھرتی ہوئی بی جے پی کا مقابلہ کر سکے۔ کھڑگے کو کلبرگی لوک سبھا سیٹ سے ٹکٹ دیا گیا اور انہوں نے یہاں سے کئی بار (2009 اور 2014 میں) جیت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں : ملکارجن کھڑگے کانگریس کے صدارتی انتخاب میں کامیاب، ششی تھرور نے دی مبارک باد
کھڑگے بدھ مت کے پیروکار ہیں اور انہوں نے کالابوراگی میں بدھ وہارا قائم کیا ہے جو بدھ مت کے ماننے والوں کا ایک روحانی مرکز ہے۔ کھڑگے کے پانچ بچے ہیں اور ان سب کے نام بدھ مت یا نہرو-گاندھی خاندان کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کا نام نام راہل کھڑگے بھی ہے۔ راہل کہتے ہیں کہ ان کے والد اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، انہوں نے ہمیشہ گھر سے باہر رہ کر سماجی خدمت کی اور ان کی والدہ نے ان کی حقیقی معنوں میں پرورش کی ہے۔