کورونا کی تباہی کا سلسلہ ابھی تھما بھی نہیں ہے کہ اسی دوران بڑی تیزی کے ساتھ ڈینگو بخار کی وبا خطرناک طریقے سے ملک بھرمیں قہر برپا کرنے لگی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ہر روز سینکڑوں لوگ ڈینگو سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ڈینگو کے مریضوں کی بڑھ رہی تعداد کی وجہ سے ملک کی کئی ریاستوں میں افراتفری مچ گئی ہے۔ اس دوران ڈینگو کے مریضوں کی بڑی تعداد ہر روز اسپتال پہنچ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گجرات، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہریانہ، دہلی اور اتر پردیش میں بے تحاشہ ڈینگو کے مریض سامنے آرہے ہیں۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ ڈینگو کے سینکڑوں مریض اب تک موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہندوستان کی درجنوں ریاستوں میں کورونا کی وبا کے درمیان ڈینگو کے مریضوں کی آمد کی وجہ سے محکمہ صحت کے ہاتھ پیر پھولنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس وقت سب سے خطرناک حالت ریاست اتر پردیش کی ہے۔
خبروں کے مطابق اترپردیش کے فیروز آباد میں ڈینگو سے متاثر بچوں کی اموات لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ کل یعنی 13 سمتبر 2021 کی شام تک مزید سات بچوں کی موت ہوگئی تھی۔ اسی کے ساتھ ضلع بھر میں اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد 135 تک پہنچ گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کے دورے کے بعد بھی یہاں کے حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ میڈیکل کالج کے باہر سینکڑوں ڈینگو متاثرہ بچوں کے والدین اور دوسرے رشتے داران کی صحت یابی کے انتظار میں بے چین نظر آرہے ہیں۔
فیروز آباد میں اگست کے بعد لگاتار ڈینگو کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی لاشیں باہر نکلتی دیکھی جاتی ہیں۔ مگر بے شرم گودی میڈیا کی ساری توجہ صرف افغانستان، طالبان اور ہندو مسلم جیسے سیاسی ٹاپک پر مرکوز ہے۔ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سنگیتا انیجا نے بتایا ہے کہ میڈیکل کالج میں 70 چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹرس اور میڈیکل کی پوری ٹیم دن رات خدمات انجام دے رہی ہے۔ جبکہ اب تک 423 ڈینگو متاثرہ بچے داخل ہیں اور اس وبا کے شکار بچوں کے اسپتال آنے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ پرنسپل بتاتی ہیں کہ یہاں سنگین حالت میں پہنچ چکے بچوں کو ہی ایڈمٹ کیا جارہا ہے۔ مگر معمولی نزلہ، زکام اور کھانسی والے بچوں کو او پی ڈی میں دیکھ کر دوا وغیرہ دے انہیں واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے ہم ڈینگو کے متعلق میڈیکل سائنس کی تاریخ میں موجود تفصیلات بیان کریں، تاکہ لوگ وقت سے پہلے ہی ہوشیار ہوجائیں اور گھرپر ہی لازمی تدبیریں استعمال کر کے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ڈینگو کی تباہی سے محفوظ رکھ سکیں۔ میڈیکل سائنس میں موجود ڈینگو کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ وبا 1775میں رونما ہوئی تھی۔ مگر اس وقت کے میڈیکل ایکسپرٹس اور ماہرین ٹھیک ڈھنگ سے اس کاپتہ لگانے اور ٹیکے تیار کرنے میں ناکام رہے۔ چناں چہ بتایا جاتا ہے 1775کے عشرے میں ایشیا، افریقا اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی جس میں مریض کو ایک دم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا۔جبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد، خونی الٹیاں اورخونی پیچش کی بھی شکایت ہو نے لگی تھی۔
یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار اسی بیماری کا شکار ہوکر ہمیشہ کے لیے موت آغوش میں چلے گئے۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بیماری سے متاثر افراد کی تعداد بڑھتی چلی گئی، جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس مرض کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو یہ مچھر کاٹ لیتا ہے اس کے جسم میں ڈینگو کا وائرس منتقل ہوجاتا ہے اور یہی وائرس متاثرہ مریض کے خون میں سفید خلیوں (WBC)کو ختم کرتا ہے۔ شدید بخار،متلی اور قے، کمر اور پٹھوں میں درد اور سر میں شدید درد ڈینگو بخار کی اہم علامات ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ڈینگو ایک مچھر سے پھیلنے والی بیماری ہے جو ہر سال تقریبا 10 سے 40 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈینگو پھیلانے والے وائرس کو ڈینگو وائرس کہا جاتا ہے اور یہ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ جس کی اجمالی تفصیل ہم مضمون کے شروع میں ہی کردیا ہے۔
اس بیماری کو پھیلانے والی مچھر مادہ ہوتی ہیں۔ مادہ مچھروں کو انڈہ دینے کیلیے خون کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ انسانوں کو کاٹ کر پوری کرتی ہیں۔ کاٹتے ہوئے مادہ مچھر اپناتھوک نکالتی ہے جو خون کو جمنے نہیں دیتا اور اس دوران وہ اپنے انڈے کیلیے درکار خون حاصل کر لیتی ہے۔ اگر اس تھوک میں ڈینگو وائرس موجود ہو تو اس شخص کو ڈینگو بخار ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بیماری ڈلیوری کے وقت ماں سے بچے میں اور خون کی منتقلی کے دوران بھی پھیل سکتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ڈینگو بہت ہی کم مریضوں میں جان لیوا ثابت ہوتا ہے، جبکہ زیادہ تر افراد میں محض نزلہ زکام کی سی کیفیت ہوتی ہے جوکچھ دن میں خود بہ خود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ مزید علامات میں مندرجہ ذیل سر فہرست ہیں:
تیز بخار۔ سر درد۔ قے اور متلی۔ گلینڈز میں سوزش۔ آنکھوں کے پیچھے درد۔ زیادہ تر تو علامات معمولی ہی رہتی ہیں، مگر شدید علامات میں مندرجہ ذیل ہیں:
مستقل قے آنا۔ شدید پیٹ درد۔ سانس لینے میں دشواری۔تھکاوٹ۔ بے چینی۔ پیشاب اور پاخانے میں خون آنا۔ مسوڑھوں سے خون آنا وغیرہ ڈینگو بخار کی خاص علامات (symptoms of dengue) ہیں۔
اوپر بتائی گئی علامات کی موجودگی کی صورت میں ڈاکٹر مندرجہ ذیل ٹیسٹس تجویز کر سکتا ہے:
یہ ٹیسٹ علامات ظاہر ہونے کے 7 یا اس سے کم دن تک کیا جاتا ہے اور یہ انسان کے سیرم میں وائرس کا جینیٹک مٹیریل کی موجودگی بتاتا ہے۔
سیرولوجیکل ٹیسٹس(Serological tests):
یہ علامات ظاہر ہونے کے 7 دن بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹس خون میں وائرس کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی کا پتہ چلاتی ہیں۔ آئی جی اے انفیکشن کے 5 دن بعد، جبکہ آئی جی ایم 2 سے 4 ہفتوں بعد بنتی ہیں۔ دونوں ٹیسٹس کرانے کے بعد ڈاکٹر کو بلا شک و شبہ ڈینگو ہونے یا نہ ہونےکا پتہ بتا دیتی جاتی ہے۔ خیال رہےکہ اس بیماری کا ابھی تک کوئی واضح علاج موجود نہیں ہے، لہذا ڈاکٹرز علامات کو کم کرنے کیلیے دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ معمولی علامات کی صورت میں محض پین کلرز جیسا کہ پیناڈال بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس بیماری کی صورت میں ایسپرین قطعا استعمال نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے خون بہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ شدید علامات کی صورت میں اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے اور آئی وی لائن کے ذریعے بلڈ ٹرانسفیوژن یا فلوڈز دیے جاتے ہیں۔
ڈینگو بخار کی دوا صرف علامات کو دیکھنے اور پلیٹلیٹس کے لیے بلڈ ٹیسٹ کے بعد ہی دی جاتی ہے۔ لیکن کسی بھی قسم کے ڈینگو میں مریض کے جسم میں پانی کی کمی کی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اسے وافر مقدار میں پانی اور دیگر سیال (لیمبو پانی، چھاچھ اور ناریل کا پانی وغیرہ) دیا جائے تاکہ خون گاڑھا نہ ہوسکے اور اس کے جم جانے کا اندیشہ بھی ختم ہوجائے۔ اس کے علاوہ مریض کو مکمل آرام کرنا چاہیے۔ یاد رکھئے کہ آرام ہی ڈینگو کی سب سے اہم اور کارگردوا ہے۔