امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے جلد خاتمے زور دیتے ہوئےخبردار کیا ہے کہ چین نے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کی تواسے بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی
رپورٹ کے مطابق ویڈیو کال پر کی جانے والی گفتگو دو گھنٹے تک جاری رہی جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر چین یوکرین میں روس کے حملوں کی براہِ راست حمایت کرتا ہے تو اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
چینی وزارت خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ شی جن پنگ کا نے امریکی ہم منصب جوبائیڈن کو بتایا کہ تصادم اور دشمنی کسی کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ اس وقت کے لیے اولین ترجیحات مسلسل مذاکرات، گفتگو کے ذریعے شہریوں کو نقصان سے بچانا اور انسانی بحران سے بچتے ہوئے جلد از جلد جنگ بندی کرنا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ تمام فریقین کو روس اور یوکرین کے مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیےجبکہ واشنگٹن اور نیٹو کو بھی چاہیے کہ وہ بھی روس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یوکرین کے معاملے کو حل کرے۔
چینی میڈیا نے شی جن پنگ کا حوالہ دیا کہ ان کا کہنا ہے کہ ’ یوکرین بحران ایسی چیز ہے جیسے ہم نہیں دیکھنا چاہتے‘، اس معاملےکو حل کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے بھی درخواست کی گئی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’بڑی اقوام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے سرد جنگ کی ذہنیت کو مسترد کریں‘۔
جوبائیڈن چین کے ساتھ نئی ’سرد جنگ‘ سے بچنے کے لیے بے چین ہے اور اس کے بجائے مسابقتی بقائے باہمی کے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم چین کی جانب سے گزشتہ ماہ روس کے ساتھ ’ لامحدود‘ اسٹریٹجک شراکت داری کا اعلان کیا گیا اور یوکرین پر ان کا مؤقف سوالیہ نشان ہے۔
چین نے یوکرین میں روس کی کارروائی کی مذمت کرنے یا اسے حملہ قرار دینے سے انکار کردیا ہے، جبکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کی خودمختاری تسلیم کرتا ہے۔
بیجنگ بارہاں کہہ چکا ہے کہ روس کے سیکیورٹی کے خدشات جائز ہیں، ان سے نمٹنا چاہیے اور سفارتی حل کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
گفتگو میں شامل شخص کا کہنا ہے کہ چین کی روس پر مدد کے منفی اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے جوبائیڈن انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ اور ان کے اتحادیوں نے اس سے متعلق اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
روس پر وسیع تر اقتصادی پابندیوں کے ساتھ بیجنگ کو نشانہ بنانے پر دنیا اور امریکا کے لیے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں، کیونکہ چین دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ پر چین کا روس سے راہیں جدا کرنے کا کوئی امکان نہیں لیکن اس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا بیجینگ کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے، ماسکو سے قریبی تعلقات عالمی دارالحکومتوں میں چین کی ساخت کو متاثر کرسکتے ہیں۔