مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیل میں ایک ‘نئی قسم کے ابتدائی انسانوں’ سے تعلق رکھنے والی ہڈیاں پائی گئی ہیں جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ انسان کے ارتقا کے عمل پر نئی روشنی ڈالنے کا موقع فراہم کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وسطی شہر رملا کے قریب سیمنٹ پلانٹ کی کھدائی پر تاریخی باقیات کا انکشاف ہوا ہے جو اب تک سامنے آنے والے ہومو جینس (ہم نوع) میں سے کسی سے مماثلت نہیں رکھتے ہیں۔
سائنس جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں تل ابیب یونیورسٹی اور عبرانی یونیورسٹی یروشلم کے محققین نے ‘غیر معمولی دریافت’ کو ‘نشر رملا ہومو قسم’ کا نام دیا۔
یہ فوسلز (زمین سے کھود کر نکالی گئی باقیات) کی تاریخ ایک لاکھ 40 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے کی ہے اور محققین کا خیال ہے کہ نشر رملا قسم جدید انسانوں کی نسل ہومو سیپیئنس سے میل کھاتی ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہر یوسی زیدنر نے کہا کہ ‘ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہومو سیپیئنز کے ساتھ ساتھ قدیم انسان بھی انسانی تاریخ میں اس قدر پہلے گھومتے رہے ہیں’۔
محققین نے ایک بیان میں کہا کہ ‘نشر رملا کی کی شکل کی خصوصیات نینڈرتھلز (انسانوں کی ختم ہوجانے والی نسل) اور قدیمہ انسان دونوں کے ساتھ مشترک ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ”اس ہی دوران اس طرح کا انسان جدید انسانوں سے بالکل مخلتف ہے، یہ کھوپڑی کا بالکل مختلف ڈھانچہ ہے جس میں ٹھوڑی نہیں اور بہت بڑے دانت ہیں’۔
انسانی باقیات کے ساتھ ساتھ کھدائی میں جانوروں کی ہڈیوں کی بڑی مقدار کے ساتھ ساتھ پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں۔
یوسی زیدنر نے کہا کہ ‘انسانی فوسلز کے آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ نشر راملا ہومو پتھر کے اوزار کی جدید ٹیکنالوجی موجود تھی اور ممکنہ طور پر وہ مقامی ہومو سیپیئنس کے ساتھ بات چیت کرتے تھے’۔
محققین نے تجویز دی کہ اس سے قبل 4 لاکھ سال کے اسرائیل میں دریافت ہونے والے چند فوسلز کا تعلق اسی طرح کے انسان سے ہوسکتا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے دانتوں کے ماہرین اور ماہر بشریات راچل ساریگ نے بتایا کہ اس سے قبل محققین بڑی عمر کی ہڈیوں کو ہومو سیپیئنز یا نینڈرتھلز جیسے نامعلوم انسانی گروہوں سے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ‘تاہم اب ہم کہتے ہیں کہ نہیں، یہ ایک علیحدہ گروپ ہے جس میں الگ الگ خصوصیات ہیں’۔
اسرائیلی محققین نے یہ متنازع دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطی میں ایک نئے قدیم انسانی گروپ کی دریافت ان نظریات کو چیلنج کرتے ہیں کہ نینڈرتھل کا آغاز یورپ میں ہوا تھا۔
تل ابیب یونیورسٹی کے اسرائیل ہرشکوٹز نے کہا کہ ‘ان نئے انکشافات سے قبل بیشتر محققین نینڈرتھلز کو ایک’ ’یورپی کہانی‘ ‘مانتے ہیں جس میں نینڈرتھلز کے چھوٹے چھوٹے گروہ پھیلتے ہوئے گلیشیئر سے بچنے کے لیے جنوب کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے’۔