سائنسدانوں نو 29 اقسام کے جانوروں بشمول پالتو جانور، مویشی اور جنگلی حیات میں کورونا وائرس کے کیسز کو دریافت کیا ہے۔
محققین نے بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں انسان جانوروں میں کورونا وائرس کو منتقل کرتے ہیں مگر بیشتر جانور اسے واپس انسانوں میں منتقل نہیں کرتے۔مگر انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ جانور جیسے ہرن بظاہر اس وائرس کو انسانوں میں پھیلا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر وائرس اسی طرح جنگلی جانوروں میں گردش کرتا ہے تو اس میں نئی میوٹیشنز ہوسکتی ہیں جس سے لوگوں کی قوت مدافعت متاثر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں بالخصوص جنگلی جانوروں کی زیادہ بہتر نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ وائرس کی نئی اقسام پر نظر رکھی جاسکے۔
پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف ویٹرنری میڈیسین کے اسسٹنٹ پروفیسر ایمان انیس نے کہا کہ میزبان خلیات میں یہ وائرس ایسے ارتقائی مراحل سے گزر سکتا ہے جن سے ااگاہ نہیں۔
سائنسدانوں نے متعدد جانوروں جیسے بلیوں، کتوں، گوریلا، ہپوز، لگڑ بھگڑ، چوہوں، خنریز، خرگوشوں، ٹائیگر اور دیگر میں کورونا وائرس کے کیسز کو دریافت کیا ہے۔
مگر کینیڈا میں ایک حالیہ طبی تحقیق میں مھققین نے ایک ایسے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ کی تصدیق ایک متاثرہ ہرن سے رابطے کے بعد ہوئی۔
اس فرد میں کوونا وائرس میں ایسی درجنوں میوٹیشنز موجود تھیں جو اب تک دیگر اقسام یں دریافت نہیں ہوئیں۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ ان تبدیلیوں کے باوجود بظاہر وائرس میں کچھ ایسا مختلف نظر نہیں آتا جو موجودہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکے۔
ویکسین وائرس کی خلیات کے اوپر موجود اسپائیک پروٹین کو ہدف بناتی ہے مگر ہرن کے اندر وائرس میں جو میوٹیشنز ہوئیں وہ دیگر حصوں میں ہوئیں۔
سائنسدانوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جنگلی جانوروں کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں یہ میوٹیشنز مسئلہ نہ بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ وائرس کس حد تک بدل سکتا ہے، بظاہر یہ وائرس مختلف جانوروں میں مختلف انداز سے بدلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ جانور تو انسانوں کو بیمار نہیں کرسکتے مگر یہ خدشہ موجود ہے کہ کوئی ایسا نیا جانور سامنے آجائے جو انسانوں میں اس وائرس کو منتقل کرنا شروع کردے۔