کہتے ہیں کہ کسی صاحب کا حافظہ بڑا غضب کا تھا. شیطان نے ان کا امتحان لینے کیلئے بھیس بدلا اور ان سے آکر پوچھا، “انڈہ کھاتے ہو؟”. انہوں نے جواب دیا، “ہاں کھاتا ہوں”. اور پھر 10 سال بعد اسی روپ میں آکر صرف اتنا پوچھا، “کیسا؟”. تو ان صاحب نے جواب دیا، “ابلا ہوا”.
ہم اکثر محفلوں میں ‘آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے!’ جیسے جملے سنتے رہتے ہیں. ہمارا خیال تھا کہ چہرے بھولنے کی بیماری شاید حافظے کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن اب ایک تحقیقی مطالعے میں ماہرین نے دریافت کی ہے کہ چہرا پہچاننے کی صلاحیت یا نہ پہچاننے کی صلاحیت کوئی اکتسابی مہارت یا ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ یہ صلاحیت بھی جینز کی مرہون منت ہے.
ملتے جلتے چہروں کی شناخت ایک اہم معاشرتی پہلو ہے جو خصوصی سمجھ بوجھ اور عصبی نظام کی وجہ سے ممکن ہوپاتا ہے. قبل ازیں ماہرین کا خیال تھا کہ دماغ مٰں چہرے پہچاننے کا ایک خصوصی حصہ ہوتا ہے. ایک یہ خیال بھی عام ہے کہ چہرہ نہ پہچاننے کی خامی جسے prospagnosia اور عام زبان میں چہرے کا اندھا پن کہتے ہیں بھی موروثی بیماری ہوسکتی ہے.