‘انڈیا کی معیشت پر بڑے کاروباری خاندانوں کا غلبہ ہے۔ یہ صورتحال معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔’ ‘اگر ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا میں کاروباری مسابقت بڑھے اور بڑے کاروباری گروپ اپنی مصنوعات اور خدمات مہنگے داموں فروخت نہ کریں تو ان بڑے کاروباری گروپوں کا سائز کم کرنا ہو گا۔’
ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے امریکی ریسرچ گروپ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک نئے مقالے میں یہ مشورہ دیا ہے۔
آچاریہ، جو نیویارک یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ صنعتی ارتکاز (ایک ایسی صورت حال جس میں چند کمپنیاں کسی ملک کی کل پیداوار پر غلبہ رکھتی ہیں) میں 1991 میں لبرلائزیشن اپنانے کے بعد کمی آئی ہے لیکن 2015 کے بعد دوبارہ عروج کا مرحلہ شروع ہوا۔
تاہم سنہ 2021 میں انڈیا کے پانچ بڑے کاروباری خاندانوں، ریلائنس، اڈانی، ٹاٹا، آدتیہ برلا اور بھارتی ایئرٹیل، کے اثاثوں کا حصہ بڑھ کر تقریباً 18 فیصد ہو گیا۔ سنہ 1991 میں یہ 10 فیصد تھا۔
ویرل اچاریہ کہتے ہیں ‘یہ کمپنیاں نہ صرف بہت چھوٹی کمپنیوں کی قیمت پر پھیلی ہیں، بلکہ یہ پانچ سب سے بڑی کمپنیوں کی قیمت پر بھی بڑھی ہیں۔ کیونکہ اس دوران ان پانچ بڑی کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر 18 فیصد سے کم ہو کر نو فیصد رہ گیا۔’
وائرل اچاریہ کے مطابق ایسا بہت سی وجوہات کی وجہ سے ہوا جن میں ان بڑی کمپنیوں کی جانب سے چھوٹی کمپنیوں کی خریداری، انضمام اور حصول کے لیے بڑھتی ہوئی بھوک اور حکومت کی جانب سے ایسی صنعتی پالیسی شامل ہے جو پراجیکٹس الاٹ کرنے میں بڑی کمپنیوں کی مدد کرتی ہے۔
تشویش ناک رجحانات
وائرل اچاریہ کے مطابق یہ رجحانات تشویشناک ہیں جو کرونی کیپٹلزم (ایک ایسی صورتحال جس میں کاروبار کو سیاسی رابطوں کے ذریعے محفوظ بنایا جاتا ہے) کی علامت ہیں۔
ان کے مطابق ایسے حالات میں کارپوریٹ کمپنیوں کے گروپوں میں غیر قانونی لین دین ہوتا ہے اور جو کمپنیاں حکومت یا سیاسی قیادت کے قریب تر ہوتی ہیں وہ بینکوں سے زیادہ سے زیادہ قرضہ حاصل کرتی ہیں۔
اس کی وجہ سے ان کمپنیوں کو آسانی سے فنڈز مل جاتے ہیں جبکہ دوسرے حریفوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں، اڈانی گروپ پر ہنڈنبرگ ریسرچ کی رپورٹ میں گروپ کے ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا سوال اٹھایا گیا تھا۔
اڈانی گروپ پر ہنڈنبرگ کی اس رپورٹ کی وجہ سے اڈانی گروپ کی مارکیٹ ویلیو میں زبردست کمی آئی اور سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر سٹاک مارکیٹ میں ڈوب گئے۔
آئی ایم ایف کے سابق افسر جوش فیلڈمین نے بی بی سی سے اس معاملے پر بات چیت میں کہا کہ ایسی ‘قومی چیمپئن کمپنیاں آسانی سے اوور لیوریج ہو جاتی ہیں اور پھر ڈوب جاتی ہیں۔’
‘اس سے ملکی معیشت کو کافی نقصان ہوتا ہے۔ ایسا کئی ایشیائی ممالک میں ہو چکا ہے۔ خاص طور پر 1998 میں، یہ انڈونیشیا میں بہت دیکھا گیا تھا۔’
ماہر اقتصادیات نوریل روبینی نے پروجیکٹ سنڈیکیٹ کے لیے فروری کے ایک کالم میں انڈیا کے معاشی ماڈل پر تشویش کا اظہار کیا جس میں ‘چند بڑے نجی اولیگارک بزنس ہاؤسز کو معیشت کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔’
انھوں نے لکھا ‘اس پالیسی کی وجہ سے oligarch کاروباری گھرانے پالیسی سازی پر گرفت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور انھیں اس کا فائدہ ہوا ہے۔’
اولیگارکی ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جب چند لوگ اپنی بے پناہ دولت یا کاروباری مفادات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں۔
روبینی نے کہا کہ ‘ایسے حالات کی وجہ سے جدت ختم ہونے لگتی ہے۔ ملک کی اہم صنعتوں میں اسٹارٹ اپس اور دیگر کمپنیوں کا داخلہ رک جاتا ہے۔’
نیشنل چیمپئن کمپنیاں بنانے کی پالیسی میں کیا مسئلہ ہے؟
قومی چیمپئن کمپنیاں بنانے کے لیے انڈیا نے جو حکمت عملی اپنائی وہ 1990 کی دہائی میں چین، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا کی طرف سے اپنائی گئی حکمت عملی سے ملتی جلتی ہے۔
ایسی کمپنیاں ایک بڑا کاروباری گروپ ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک خاندان چلاتا تھا۔ ان کو چیبل کہتے تھے۔
سمارٹ فون کمپنی سیم سنگ ایک chaebol (بڑے خاندان کی ملکیت کمپنی) کی ایک مثال ہے۔ ایک زمانے میں جنوبی کوریا کی معیشت پر اس بڑی کمپنی کا غلبہ تھا۔
آچاریہ کہتے ہیں ‘لیکن انڈیا کی طرح، ان ممالک نے اپنی بڑی کمپنیوں کے تحفظ کے لیے ٹیرف کی شرحوں کا سہارا نہیں لیا۔’
دوسری طرف، انڈیا اپنی گھریلو صنعتوں اور بڑے کاروباری گروپوں کو عالمی مسابقت سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ پسند پالیسیاں اپنا رہا ہے۔ اور یہ سب انڈیا کی ان کوششوں کو متاثر کر رہا ہے جس کے تحت ملک کو دنیا کی اگلی فیکٹری بنانا مقصود ہے۔
آچاریہ اور روبینی دونوں کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا عالمی سطح پر زیادہ مسابقتی طور پر ابھرنا چاہتا ہے تو اسے ٹیرف کو کم کرنا ہوگا اور ‘چائنا پلس ون’ کے رجحان سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔
اس رجحان کے تحت بڑی کمپنیاں اپنے مینوفیکچرنگ بیس کو انڈیا اور ویت نام جیسے ممالک میں منتقل کرنا چاہتی ہیں۔
آچاریہ کا کہنا ہے کہ صنعتی ارتکاز کا گھریلو معیشت پر اثر پڑ سکتا ہے۔ مارکیٹ میں بگ فائیو کی بڑھتی ہوئی طاقت مسلسل بڑھتی ہوئی بنیادی افراط زر کی شرح کو بلند رکھ سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس قیمتوں کا تعین کرنے کی بے مثال طاقت ہے اور وہ اس معاملے میں صنعت کی دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں برتری کی پوزیشن میں ہیں۔
قیمتوں کا تعین کرنے کی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ یہ بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں طویل عرصے تک کم رکھ سکتی ہیں۔ اس سے مسابقتی کمپنیوں کے لیے مارکیٹ میں زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔