ایران کے صدارتی انتخاب کے سرکاری نتائج کا اعلان ہونے میں قدرے تاخیر ہوئی ہے لیکن غیر سرکاری نتائج کے مطابق صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی نے دیگر تین امیدواروں کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرلی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق صدارتی انتخاب کے دیگر تینوں امیدواروں نے ابراہیم رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد بھی پیش کردی۔
سبکدوش ہونے والے اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے ابراہیم رئیسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ‘میں لوگوں کو ان کی پسند پر مبارکباد دیتا ہوں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘میری سرکاری مبارکباد پر مبنی پیغام بعد میں جاری کیا جائے گا لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس انتخاب میں کس کو کافی ووٹ ملے اور آج عوام نے کس کو منتخب کیا’۔
60 سالہ ابراہیم رئیسی رواں برس اگست میں صدارتی منصب سنبھالیں گے جنہیں امریکا سے جوہری معاہدے جسے اہم معاملات کا سامنا ہوگا، تاکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں ختم ہوں اور ملک میں معاشی بحران پر قابو پایا جاسکے۔
50 فیصد یا اس سے کم ٹرن آؤٹ کے پیش نظر گزشتہ روز شروع ہونے والی ووٹنگ مقررہ وقت سے 2 گھنٹے بعد تک جاری رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ’کیا تماشا ہے‘، ایران کے سپریم رہنما کا امریکی جمہوریت پر طنز
ووٹوں کی گنتی رات بھر جاری رہی تاہم حکام کی جانب سے باضابطہ نتیجہ یا ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے۔
خیال رہے کہ ایران کی سپریم کونسل نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کو صدارتی انتخاب کی دوڑ سے الگ کردیا تھا۔
بعد ازاں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ ووٹ نہیں دیں گے، ‘میں اس گناہ میں حصہ نہیں لینا چاہتا’۔
صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ سے متعلق حتمی اعداد و شمار آنا باقی ہیں تاہم ایرانی میڈیا کے مطابق مجموعی طور پر 6 کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔
ایران میں 12 رکنی سپریم کونسل نے سیکڑوں امیدواروں سمیت اصلاح پسندوں اور حسن روحانی کے ساتھ اتحاد کرنے والوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
اس سے قبل تجزیہ کار 60 سالہ قدامت پسند ابراہیم رئیسی کو غیر متنازع امیدوار دیکھ رہے تھے۔
ڈپلو ہاؤس تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حامد رضا نے امید ظاہر کی تھی کہ ابراہیم رئیسی کو انتخاب میں کامیابی ملے گی۔
خیال رہے کہ 60 سالہ ابراہیم رئیسی انقلاب ایران کے بعد اہم عہدوں پر فائر رہے جبکہ محض 20 سال کی عمر میں ہمدان صوبے میں بطور پراسیکیوٹر مقرر ہوئے تھے، جس کے بعد انہیں جلد ہی نائب پراسیکیوٹر پر ترقی دے دی گئی۔
ان پر مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے 1988 میں نسل کشی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ابراہیم رئیسی مختلف مراحل میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور 2019 میں عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے منصب پر فائز ہوئے۔