کل تک کورونا وائرس محض ایک بیماری ہی تھا، لیکن آج تو یہ ہماری صدیوں پرانی مذہبی ثقافتی روایات پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ کیا ظلم ہے کہ ہم نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے سے محبت بھرے مصافحے نہیں کرسکتے، پُرجوش معانقے نہیں کرسکتے، گال سے گال ملانا جرم ٹھہرا اور وفور جذبات سے ماتھا چومنا کارِ ممنوع۔ خالص محبت تو پہلے ہی ناپید ہوتی جارہی تھی مگر اس وبائے قاتل نے ہم سے اظہارِ محبت بھی چھین لیا ہے۔
کورونا وائرس لیبارٹری میں بنایا گیا یا قدرتی آفت ہے، یہ بیماری کتنی مہلک ہے اور کس حد تک متعدی ہے، اس قبیل کے پیچیدہ تحقیقی سوالات کی الجھن میں پڑے بغیر ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ کورونا وائرس قریب ہونے سے پھیل سکتا ہے، یہ مرض جان لیوا ہوسکتا ہے اور وبا کی شدت میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ جب ہم ان حقائق کو تہہ دل سے تسلیم کرلیں گے تو سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے عید کی خوشیاں منانا ہمارے لیے نہایت آسان ہوجائے گا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دلوں میں محبت کے دریا موجزن ہوں تو سماجی فاصلے بے معنی ہوجاتے ہیں اور یہ کہ محبت شعور کے تابع ہو تو سماجی فاصلہ ہی بہترین اظہارِ محبت ہے لہٰذا ایک دوسرے کے گھر جانے کی بجائے اپنے عزیز و اقارب سے فون پر رابطے کیجیے، ویڈیو کانفرنس پر آن لائن محفلیں سجائیے، ایزی پیسہ، جاز کیش اور بینک ٹرانسفر کے ذریعے عیدی بھجوا دیجیے، مزے مزے کے خوشبودار عید پکوان بناکر غریبوں میں بانٹنے کا روحانی سکون پائیے اور عید کی ان خوشیوں میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کیجیے۔
اس وبائے قاتل نے ہم سے اظہارِ محبت بھی چھین لیا ہے۔— رائٹرز
یہ اپنوں سے محبت کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا بھی تقاضا ہے۔ ہم نے آج تک کتنی ہی عیدیں آزادی سے منائی ہیں اور آئندہ بھی ایسی بہت ساری عیدیں منائیں گے لیکن آج اگر ایک عید وبا کے دنوں میں آگئی ہے تو کیوں نہ ہم حکومتی احکامات کے مطابق بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
غربت ایک عالمی مسئلہ ہے جو وبا کے ان دنوں میں نہایت شدت اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ہماری قوم نے اپنے ہم وطنوں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے اور ثابت کیا کہ سخاوت و درد مندی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے غریب طبقے کے مسائل ابھی پوری طرح حل نہیں ہوئے۔ بحثیت قوم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اس عید پر فیاضی اور ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے بچوں میں منتقل کرنے کا ایک نادر موقع ہمیں میسر آ رہا ہے۔ عید الفطر وہ واحد موقع ہوتا ہے جب بچے عیدی کے ذریعے ایک معقول رقم کے مالک بن جاتے ہیں۔ آئیے آج اپنے بچوں کو غریبوں کے مسائل سمجھا کر انہیں اپنی عیدی کورونا کے معاشی اثرات کا شکار ہونے والے مفلوک الحال لوگوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کو پہلے بھی عیدی ملتی رہی ہے اور آئندہ بھی ملتی رہے گی لیکن آئیں اس بار یہ عیدی ان لوگوں پر خرچ کردیں جنہیں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہوسکے تو یہ مالی تعاون بچوں کو اپنے ہاتھ سے کرنے کا موقع دیں۔ یقین کیجیے کہ اگر ہم یہ عظیم کام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیجیے کہ ایک دن میں پوری نسل جذبہ اخوت سے معمور ہوجائے گی۔
ہر سال ہم ان متوفیان کو عید پر ضرور یاد کرتے ہیں جو پچھلے سال ہمارے ساتھ تھے لیکن اس بار ہمیں بالخصوص ان مرحومین کو یاد کرنا ہے، وبا جن کی جانیں نگل گئی، جن کے عزیزوں کو ان کا آخری دیدار تک نصیب نہ ہوا، جن کی قبروں پر مٹی بھی چند ہاتھوں نے ڈالی، جنہیں غسل دینے سے لوگ ڈرتے تھے اور جنہیں قبر کی تنہائی سے پہلے ہی تنہائیوں کا سامنا تھا۔ ان کے لواحقین صبر کریں، حوصلہ رکھیں اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ وبا کے باعث جان دینے والے شہید اخروی ہوتے ہیں۔
اس عید پر فیاضی اور ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے بچوں میں منتقل کرنے کا ایک نادر موقع ہمیں میسر آ رہا ہ—رائٹرز
یاد رکھیے وبا نے آج پہلی بار اس کرہ ارض پر ڈیرے نہیں ڈالے، قدرت اس سے پہلے بھی ہمیں آزماتی رہی ہے لیکن باشعور قومیں ہر آفت سے نکلنے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر ابھرتی ہیں کیونکہ تباہیاں انسانوں اور نظاموں کی کمزوریوں کے بھانڈے نہایت بے دردی کے ساتھ بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا کرتی ہیں۔ پھر یہ اس قوم کے صاحبانِ علم و عقل و صاحبان اقتدار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ان کمزوریوں کو دُور کرنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
حکومت کا کام حکومت جانے لیکن آئیے ہم اپنی ان انفرادی کمزوریوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں جو اس وبا نے ہمارے سامنے واضح کردیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وبا کے دوران آپ کی کونسی انفرادی کمزوریوں کی تشخیص ہوئی اور انہیں دُور کرنے کے لیے آپ کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں ہم جیسے وبا سے پہلے تھے، وبا کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے؟
ہوسکے تو اپنے تجربات، خیالات، مشاہدات و محسوسات ضرور شئیر کریں