سعودی عرب کے صوبہ اسیر میں واقع ابھا ایئرپورٹ پر ڈرون حملے کے نتیجے میں آٹھ افراد زخمی ہو گئے اور ایک طیارے کو نقصان پہنچا۔خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق یہ پڑوسی ملک یمن میں جاری شدید جنگ کے دوران سعودی عرب پر تازہ حملہ ہے تاہم ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی جو گزشتہ 24 گھنٹوں میں ابھا ایئرپورٹ پر اس طرح کی دوسری بڑی کارروائی ہے۔
اس سے پہلے حملے کا الزام ایران کی حمایت یافتہ یمن کے حوثی باغیوں پر لگایا گیا تھا جس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
یمن میں حوثیوں سے برسرپیکار سعودی فوجی اتحاد نے اس تازہ حملے کی تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی زخمی ہونے والوں کی تفصیلات فراہم کیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ فورسز نے دھماکا خیز ڈرون کو روک لیا۔
سعودی عرب کی وزارتی کونسل نے ابھا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر یمن سے حوثی ملیشیا کے ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔
سعودی عرب کی وزارتی کونسل کا اجلاس منگل کے روز شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے زیر صدارت ہوا جس میں یمن سے سعودی عرب کے شہری علاقوں اور شہری تنصیبات کی جانب حوثی ملیشیا کے ڈرون اور میزائل حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق کابینہ نے کہا کہ حوثیوں نے جان بوجھ کر اور منظم اندازمیں ابھا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملے کی کوشش کی ہے، ان کی یہ کارروائی جنگی جرم کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ انہوں نے مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسافروں اور ہوائی اڈے کے ملازمین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل ترکی المالکی نے بتایا کہ ان کے فضائی دفاعی نظام نے حوثیوں کے ہوائی اڈے کی جانب چھوڑے گئے ڈرون کوہدف پرگرنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا تھا، اس کا ملبہ اور ٹکڑے گرنے سے ابھا ایئرپورٹ کے عملہ کے آٹھ ارکان زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے کہ جب چند دن قبل ہی یمن کے جنوب میں ایک اہم فوجی اڈے پر میزائلوں اور ڈرونز کے ٹکرانے کے نتیجے میں سعودی حمایت یافتہ 30 یمنی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور ملک میں کئی سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا، مذکورہ حملے کی ذمےداری بھی کسی نے قبول نہیں کی تھی تاہم اس طرح کے حملے کرنے کے لیے حوثی باغی مشہور ہیں۔
2015 سے یمن کے حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ اتحادی افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے جس میں حوثی سعودی عرب کے اندر فوجی تنصیبات اور تیل کے اہم انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
ان حملوں میں اکثر جنوبی شہروں ابھا اور جیزان کو نشانہ بنایا گیا جن میں شاذ و نادر ہی نقصان پہنچا اور برسوں کے دوران کم از کم ایک شخص ہلاک، درجنوں زخمی ہوئے لیکن تیل کی عالمی منڈیوں میں ہلچل پیدا ہوئی۔
یمن میں سعودی اتحاد بمباری سے شہریوں کی ہلاکت، ہسپتالوں اور شادی کی تقریبات جیسے غیر فوجی اہداف کو نشانہ بنانے پر سعودی عرب کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔
یمن کی جنگ ایک خونریزی اور تعطل کا شکار ہو گئی ہے اور جنگ کو روکنے کی بین الاقوامی سفارتی کوششیں تیز ہو گئی ہیں، حوثیوں نے حالیہ مہینوں میں تیل سے مالا مال حکومتی گڑھ ماریب پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے اور ان کے سعودی عرب پر حملوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
باغیوں کی جانب سے مارب پر حملے کی کوشش کے بعد یمنی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کے روز قریبی شہر رہبہ پر حملے کو ناکام بنا دیا۔
حالیہ مہینوں میں مارب صوبے کے ارد گرد ہونے والی لڑائیوں میں ہزاروں جنگجو مارے گئے ہیں جن میں زیادہ تر حوثی ہیں اور پیر کے روز 12 سرکاری فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
یمن کی جنگ 2014 میں شروع ہوئی تھی جب باغیوں نے دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمال میں واقع بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا، سعودی قیادت میں فوجی اتحاد نے کئی مہینوں بعد حوثیوں کے خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی بحالی کے لیے مداخلت کی۔
اس جنگ نے تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور دنیا کے بدترین موجودہ انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔