یورپین یونین نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے محدود عملے کے ساتھ سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کیا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کو یورپین یونین نے تسلیم نہیں کیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپین یونین کے امور خارجہ کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے کابل میں محدود ترین سطح پر موجودگی یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں موجودگی یقینی بنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور یہ بات متعلقہ حکام تک پہنچا دی گئی ہے۔
افغانستان کو اس وقت انسانی بحران کا سامنا ہے اور طالبان کی جانب سے ملک اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد مغربی ممالک نے بین الاقوامی امداد منجمد اور بیرون ملک موجود اربوں ڈالر مالیت کے اثاثوں تک رسائی پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومت کے زیر انتظام ملک کا انحصار تقریباً مکمل طور پر غیرملکی امداد پر تھا لیکن اب اس نئی حکومت میں ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں اور زیادہ تر سرکاری ملازمین کو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔
ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اکثر ممالک اس بات کے منتظر ہیں کہ طالبان انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے سابقہ دور حکومت کی نسبت کس حد تک بہتر اور عالمی سطح پر قابل قبول طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔
یورپین یونین کے نمائندے پیٹر اسٹانو کے بیان سے کچھ دیر قبل افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ یورپین یونین 5 ماہ بعد پہلی بار کابل میں مستقل موجودگی کے ساتھ دوبارہ ایک سفارت خانہ کھول رہا ہے۔
پیٹر اسٹانو نے بیان میں کہا کہ یورپین یونین نے انسانی امداد کی فراہمی اور صورت حال کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی یورپین یونین کے وفد کے عملے کی کم سے کم موجودگی کے ساتھ دفتر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھی جدیدیت اختیار کر چکے ہیں لیکن اب بھی ملک میں خواتین کی بڑی تعداد سرکاری ملازمتوں سے باہر ہے اور لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کی تعلیم پر بڑی حد تک پابندی ہے۔
چین سمیت روس، ترکی، متحدہ عرب امارات اور ایران نے طالبان کے اقتدار میں آ نے کے باوجود کابل میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔