پھول اگر ہمارے کھانوں کو رنگ و خوشبو عطا کرتے ہیں تو ہرے بھرے پتے ہمارے کھانوں کو تنوع بخشتے ہیں اور دسترخوان کی زینت بڑھاتے ہیں۔
ہندوستان کے ہر حصے میں بے شمار ساگ پیدا ہوتے ہیں۔ میدان ہو یا پہاڑ، ساحلی علاقہ ہو یا خشک زمین ساگ کسی نہ کسی شکل میں پائے جاتے ہیں۔
اس صورت حال کا ایک ایران نے یوں مذاق اڑایا کہ ‘ہر گیاہے کہ از زمین رویند—اہل بنگالہ ساگ می گویند’ یعنی زمین سے اگنے والے ہر گھاس پھوس کو اہل بنگال ساگ کہتے ہیں۔
پالک کے علاوہ سویا، میتھی، بتھوا، سرسوں، خرفہ، مولی کے ساگ عام طور پر ہندوستانی کھانوں میں شامل ہوتے ہیں۔
چولائی کے خاندان کے تین ساگ مشہور ہیں۔ سبز چولائی، لال ساگ اور مرسا۔ یہ تینوں ساگ سادہ پکائے جاتے ہیں اور برسات کے موسم میں شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ ان کا پکانا بے حد آسان گو ان کا صاف کرنا مشکل ہے۔ ڈنٹھل سے پتیوں کو الگ کرنا اور پکانا کافی وقت اور دقت طلب ہے۔
پالک ایک عام ساگ ہے لیکن غذائیت سے بھرپور، معدہ اور جگر کی اصلاح کرکے خون صالح پیدا کرتا ہے۔ اس کا سالن مرغ، گوشت اور دالوں اور پنیر کی آمیزش سے بھی پکتا اور لذیذ ہوتا ہے۔
سویا میتھی کا ساگ قیمے کے ہمراہ پکتا ہے اور شمالی ہند میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔ میسور کے شاہی مطبخ میں پالک اور سویا کا ساگ اس قدر عمدگی سے پکایا جاتا ہے کہ کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔
ہرے ہرے دھنیے کی نازک پتیاں اور مہکتا پودینہ کھانوں کو سجانے اور مہکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہر کھانے میں ان کا بڑا ساتھ ہے ان کی بنی چٹنی مزدور کا من و سلوی ہے۔
جنوبی ایشیا میں جاڑے کا موسم صحت کے لحاظ سے زیادہ سازگار ہوتا ہے۔ اس موسم میں بے شمار ساگ پیدا ہوتے ہیں جن سے لذیذ اور توانائی بخش غذائيں تیار کی جاتی ہیں۔ پرانے لوگ کا کرتے تھے ‘کھانے کا موسم، جاڑے کا موسم۔’
جاڑے کے موسم نے انگڑائی لی اور سرسوں کے کھیت لہلہا اٹھے۔ پنجاب کا کسان خوشی سے جھوم اٹھا۔ سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی ساتھ لسی کا بڑا گلاس پنجاب کا من بھاتا کھاجا اور سردیوں کی سوغات ہے۔
مولی اور پیاز کے پتے بھی بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ ہلدی کا پودا شاید ہی آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے کیونکہ لوگ عموما اس کے پتوں کی صفات سے ناآشنا ہیں۔ ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں اسکا استعمال عام ہے۔ اس کے پتوں کا جوشاندہ سردی زکام کا علاج ہے۔
برسات کا موسم آیا اور گوا میں ہلدی کے پتوں کا پکوان ‘پاٹولا’ دسترخوان کی رونق بڑھاتا ہے۔ چاول کے آٹے کا گاڑھا لیپ پتوں پر لگا کر تازہ ناریل اور گڑ کے تراشے پسی ہوئی دارچینی کے ساتھ ملا کر پتوں کے درمیان رکھ کر پتوں کو رول کی شکل دے کر بھاپ پر پکائیں اور گرم گرم ہی اس کا لطف اٹھائیں۔
چند کم مشہور ساگ میں پوئی، امباڑے اور سائی جن کے ساگ ہیں۔ گذشتہ سال صدر ہند کے کچن گارڈن میں پوئی کا ساگ نظر آیا جسے مالی کاٹ کر باورچی خانے پہنچا رہا تھا۔ پوئی کا ساگ اہل بنگال کا من پسند کھاجا ہے۔ مچھلی کے ساتھ پکائيں یا سادہ یہ بنگال کی مشہور غذا ہے۔
سائجن کا ساگ یعنی مورنگا کے پتے ہندوستان ےک مغربی اور جنوبی حصے میں شوق سے پکائے اور کھائے جاتے ہیں۔ سائي جن ساگ سوپ،۔ سلاد اور سینڈوچ بنانے کے کام آتا ہے۔ شام کی چائے میں ساگ کے بنے پکوڑے چٹنی کے ساتھ خاص لطف دیتے ہیں۔
جنوبی ہند میں مچھلی اور کیکڑے کے ساتھ بھی پکائے جاتے ہیں۔ اس کے پکوان جنوبی ہند میں خواص و عام کی پسند ہیں۔ غذایت سے بھرپور اس ساگ کو ذیابیطس کا بہترین علاج بھی تصور کیا جاتا ہے۔ قلب کے امراض، جوڑوں کے درد اور سانس کی تکلیف رفع کرتا ہے اور ہاضمہ درست کرتا ہے۔
امباڑی کا ساگ جنوبی اور مشرقی ہند کے علاقوں کی پیداوار اور گرمیوں کی سوغات ہے۔ اس کے پتوں میں ہلکی ترشی ہوتی ہے جو کھانے کو منفرد ذائقہ دیتی ہے۔
حیدرآباد کے پکوان میں ترشی کا عنصر لازمی تصور کیاجاتا ہے۔ اس لیے امباڑی کے پتے املی کی جگہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ امباڑی کا ساگ چنے کی دال کے ساتھ اور گوشت و مرغ کے ساتھ بہترین مزہ دیتا ہے۔ نیز سوپ اور سلاد میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔
مہاراشٹر میں مہالکشمی کے تہوار میں اس ساگ کا پکوان دیوی کی نذر کیا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں اسے گھنگورا ساگ بھی کہتے ہیں۔
امرناتھ یعنی چولائی کا ساگ تین قسم کا ہوتا ہے اور یہ اترپردیش اور بہار کی محبوب غذا شمار ہوتی ہے۔ سادہ ساگ پراٹھے یا مکئی کے روٹی کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔
سرخ چولائی کو بنگال میں لال ساگ اور گوا میں اس کا سالن لال ماٹ کہلاتا ہے۔ تمل ناڈو میں پتوں پر بنائے رول بھاپ پر پکائے جاتے ہیں۔ گوشت اور مرغ کے ساتھ بھی اسے پکایا جاتا ہے۔
اروی کے پتوں کا استعمال بھی ہلدی کے پتوں کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے بنائے رول بازار میں دستیاب ہیں۔ اسے شام کی چائے کے ساتھ تل کر کھائیں یا پھر قیمے کے سالن میں پکائيں یہ کھانے کی لذت میں اضافہ کرتا ہے۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔