ٹی وی چل رہا ہے جس پر ایک خاتون عجیب بے ہودہ انداز میں تقریر کررہی ہے، اُس کی آواز اتنی بُری ہے یا شاید میرے کانوں کو بُری لگ رہی ہے کہ میں ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا لیکن میں ٹی وی بھی بند نہیں کرسکتا۔
کمرے کے کونے میں ایک چُوزہ بیٹھا ہے جس کے سامنے ایک پیالے میں پانی رکھا ہے لیکن وہ پانی نہیں پی رہا شاید وہ مرنے والا ہے، اُس کے پَر جھڑگئے ہیں اور وہ اب ایک عجیب ٹُنڈ منڈ سے چیز بن کر رہ گیا ہے اور میں عابد کی کہانی لکھ رہا ہوں۔
یہ گرمیاں اُن گرمیوں سے مختلف تو نہیں ہیں سوائے اِس کے کہ کیلنڈر پر سال بدل گیا ہے۔ بہت سال پہلے جب ایک روز میں ہوٹل پر بیٹھا تھا تو عابد کچھ بوکھلایا ہوا سا آیا، میں سمجھا شاید کوئی پولیس کا چکر ہے کہ وہ اُن دنوں لاٹری اور جوئے کی لت میں مبتلا تھا۔
’مجھے معلوم تھا تم یہیں ملو گے، چلو تمہیں ایک بات بتانی ہے‘، اُس نے آتے ہی کہا۔
’کیا ہوگیا ہے، تم کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو‘، میں نے پوچھا۔
’یہاں سے چلو تو سب بتاتا ہوں‘، اُس نے یہ کہا اور میں اُٹھ کر اُس کے ساتھ چل دیا تھا۔
ٹی وی پر اب ایک نوجوان لڑکا بے حد جذباتی انداز میں پاکستان کے موجودہ حالات پر تقریر کررہا ہے، وہ سب باتیں جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں، سُنا رہا ہے، اگر ریموٹ میرے پاس ہوتا تو میں چینل بدل دیتا لیکن میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا اور یہ کہانی جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے سر میں شدید درد ہے۔
پڑھیے: افسانہ ‘سیلن’
عابد نے مجھے بتایا کہ اقبال ٹھیکیدار کی بیٹی کو اُس سے محبت ہوگئی ہے۔ پہلے مجھے حیرت ہوئی میں سمجھا وہ مذاق کررہا ہے بھلا اُس سے کسی لڑکی کو کیوںکر محبت ہوسکتی ہے؟ اتنا فربہ جسم،رنگت سیاہ اور کام کاج وہ کرتا نہیں تھا، سارا دن جوئے کے اڈے پر پڑا رہتا، باپ سے لے کر محلے والوں تک کی اُس پر لعن طعن جاری رہتی۔ بچے عابد موٹو کہہ کر چھیڑتے تھے، بھلا اُس سے کیسے کسی کو محبت ہوسکتی تھی لیکن میں یہ باتیں کہہ کر اُس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔
میں نے کہا، ’بعض دفعہ جسے ہم محبت سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ کچھ اور شے ہوتی ہے‘۔
’کیا اورشے ہوتی ہے؟‘
’معلوم نہیں لیکن ۔۔۔‘
’لیکن ویکن کچھ نہیں، یہ دیکھو خط‘، اُس نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور میرے سامنے لہرایا۔
’اوہ اچھا تو تم نے اُس کے لیے خط بھی لکھ لیا ہے، دیکھو ان کاموں میں اتنی جلدی نہیں کرتے‘۔
’یہ اُدھر سے آیا ہے‘، اُس نے فخریہ انداز میں بتایا۔
’کیا مطلب، یہ اُس لڑکی نے لکھا ہے؟‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’جی ہاں، یہ خط اُس نے لکھا ہے۔ آج میں گلی سے گزر رہا تھا تو اوپر سے یہ خط آکر گرا، میں نے اوپر دیکھا تو وہ لڑکی کھڑی تھی اور پھر فوراً پیچھے ہٹ گئی‘۔
’کیا لکھا ہے اِس خط میں‘، میں نے پوچھا۔
’اس نے لکھا ہے کہ اسے مجھ سے محبت ہے اور وہ روز مجھے گلی سے گزرتے ہوئے دیکھتی ہے، اقبال ٹھیکیدار اس کی شادی کمہاروں کے کسی لڑکے سے کرانا چاہ رہا ہے لیکن وہ شادی کرے گی تو صرف مجھ سے کرے گی ورنہ زہر کھالے گی‘۔
میں نے عابد کی بات سنی تو کہا، ’یہ ساری محبت تو اس لڑکی کی ہے، اس میں تمہاری محبت کہاں سے آگئی؟‘
’تو گویا اس میں میری محبت ہے ہی نہیں؟ جب کوئی آپ سے محبت کرے اور آپ کے لیے مرنے کو تیار ہوجائے تو کیا آپ اس کے لیے جی بھی نہیں سکتے؟‘ عابد کی اس بات میں دم تھا اور ایک ایسا لڑکا کہ جسے گھر اور محلے والے جھڑکتے رہتے ہوں اس کے لیے یہ پیامِ محبت کچھ اور بھی شدید تھا اور ایسا ہی کچھ اثر عابد پر ہوا تھا۔
’تو اب کیا کرنا ہے دوست؟‘، میں نے پوچھا۔
’بس اب اس سے ہر حال میں شادی کرنی ہے، اور تم جاکر میرے ابّا سے کہو کہ وہ اقبال ٹھیکیدار سے میرے رشتے کی بات کریں‘۔
’میں؟‘
’ہاں تم، دوست اتنا تو کرسکتے ہونا؟‘
’ہاں لیکن تمہارے ابّا نے میری بے عزتی ہی کرنی ہے کیونکہ تم کوئی کام تو کرتے نہیں دوسرا سارا دن جوئے کے اڈے پر بیٹھے رہتے ہو بھلا وہ رشتہ لے کر کیسے جاسکتے ہیں؟‘
’اس کی تم فکر نہ کرو، آج سے سب ختم کردیا ہے، کوئی جوا نہیں، کوئی لاٹری نہیں اور میں ابّا کے ساتھ دکان پر بیٹھا کروں گا‘۔ اُس کے ارادے میں پختگی تھی، میں نے 2، 4 دن کے لیے اسے ٹال دیا کہ دیکھوں تو کیا وہ واقعی کام پر جاتا بھی ہے کہ ویسے ہی باتیں کررہا ہے لیکن وہ سچ مچ بدل گیا تھا۔
اگلے ہی دن وہ دکان پر بیٹھا تھا گریبان کے بٹن جو ہر وقت کھلے رہتے تھے اب بند تھے، جوئے والی گلی سے گزرنا بھی چھوڑ دیا تھا سو ایک روز میں نے چچا عبدالرحمٰن سے بات کی کہ وہ ٹھیکیدار اقبال کی بیٹی کے لیے عابد کا رشتہ لے کر جائیں، عابد کی خوش نصیبی کہ وہ بھی مان گئے اور اقبال ٹھیکیدار نے بھی ہاں کہہ دی۔
چوزا اب گہری نیند میں ڈوب گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اُسے ہاتھ لگا کر دیکھوں کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں، پیالہ ابھی بھی اُس کے سامنے ہے مجھے لگ رہا ہے کہ چوزہ اس پیالے میں گرجائے گا۔ عابد کی کہانی ابھی بیچ میں ہے اور میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔
مختصراً عابد کی شادی شگفتہ سے ہوگئی، اب یہ والا عابد پہلے 25 سال والے عابد سے یکسر مختلف تھا۔ اُن دنوں میں عابد کو دیکھتا تو محبت کی طاقت پر یقین بڑھ جاتا کہ یہ کیسے آدمی کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
اب وہ محبت میں جی رہا تھا، 25 سال بیچارہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا پھر شگفتہ اُس کی زندگی میں بہار بن کر آگئی، شگفتہ جو ایک آنکھ سے بھینگی تھی، عابد کو کبھی یہ خامی نظر ہی نہیں آئی وہ خوب صورت نہیں تھی لیکن عابد کے لیے وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی تھی کیونکہ وہ اُس سے محبت کرتی تھی۔ الغرض وہ خوشی خوشی زندگی گزاررہے تھے۔
چوزا لڑکھڑا کر پانی کے پیالے میں گرا اور ہڑبڑاکر باہر نکل کر کھڑا ہوگیا۔ اُس کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا چوزے کو کس بات کا خوف ہے؟ کیا یہ سوچ بھی سکتا ہے؟ کیا اسے بھی زندگی اور موت کا ادراک ہے؟
نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا اگر ایسا ہوتا تو یہ اس خوف سے کب کا مرگیا ہوتا۔ کل رات بلّی نے اس کے ساتھ کے سارے چوزے کھالیے تھے لیکن یہ بچ گیا تھا لیکن اس کے اندر کوئی خوف بیٹھ گیا تھا، بلّی کا خوف، موت کا خوف یا شاید زندگی کا خوف۔۔۔
میں نے کئی بار اُسے اٹھا کر دیکھا، وہ زخمی نہیں تھا لیکن اُس کی آنکھوں میں بے پناہ خوف تھا ایسا خوف جو زندہ نہ رہنے دے۔
جن دنوں عابد باپ بننے والا تھا ان دنوں وہ بے حد خوش تھا اور انہی دنوں محلے میں ایک ڈاکٹرنی نے میٹرنٹی ہوم کھولا۔ عابد کو اطمینان ہوا کہ یہ سارا کام محلے ہی میں نمٹ جائے گا اور اُسے شہر کے بڑے ہسپتال نہیں جانا پڑے گا لیکن وہ ڈاکٹرنی جعلی تھی اور دورانِ آپریشن شگفتہ کی حالت بگڑ گئی، بچہ بھی فوت ہوگیا۔
وہاں مناسب مشینیں نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے عابد کو کہا کہ وہ شگفتہ کو فوری طور پر شہر لے جائے۔ وہ ایمبولینس میں اُسے شہر کے سرکاری ہسپتال لے آیا لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے شگفتہ کومے میں چلی گئی اور ڈاکٹروں نے اُسے وینٹی لیٹر مشین پر منتقل کردیا۔
عابد سرکاری ہسپتال کے برآمدے میں زندہ لاش کی مانند دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا تھا۔
ایک، 2، 3 حتٰی کہ 16 دن گزر گئے لیکن شگفتہ کو ہوش نہ آیا۔
سرکاری ہسپتال میں اتنے مریض ہوتے ہیں کہ وہ 16 دن ایک مریض کو کہاں سنبھال سکتے ہیں علاج سب تک پہنچنا چاہیے چاہے تھوڑا تھوڑا کرکے پہنچے۔ پورے ہسپتال میں ایک وینٹی لیٹر مشین تھی اور مریض تھے کہ گنو تو گن نہ سکو۔
یہ 16ویں دن کی شام کا قصہ ہے کہ نرس بھاگتی ہوئی برآمدے میں عابد کے پاس آئی اور کہا اندر چلیے آپ کی بیوی کی حالت بہت خراب ہے۔ عابد دوڑتا ہوا نرس کے ساتھ اُس کمرے میں گیا جہاں شگفتہ موجود تھی، اُس نے دیکھا کہ شگفتہ بہت تکلیف میں سانس لے رہی ہے۔
’اس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں‘، اسی نرس نے کہا۔
عابد نے شگفتہ کا ہاتھ پکڑ لیا، وہ کومے میں تھی۔
شاید شگفتہ نے ہاتھ پہچان لیا تھا کہ عابد کے ہاتھ پر تھوڑا سا دباؤ بڑھ گیا تھا یا شاید اُسے ایسا صرف محسوس ہوا تھا اور پھر یکدم سب کچھ ڈھیلا ہوگیا۔۔۔
’ایمبولینس کا انتظام کیجیے، لاش منتقل کرنی ہے، جلدی کیجیے ایک اور مریض بھی آگیا ہے‘۔ نرس نے عابد سے کہا۔
عابد کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا حتیٰ کہ اُسے وینٹی لیٹر مشین کی بند اسکرین بھی نظر نہ آئی۔۔۔