جدہ: دنیا بھر میں رجعت پسند اور قدرے سخت اسلامی قواعد کے لیے مشہور ملک سعودی عرب میں پہلی بار ایک ایسے 3 روزہ کامک میلے کا اہتمام کیا گیا، جس میں مرد و خواتین ایک ساتھ نظر آئے۔
سعودی عرب کے بندرگاہی شہر جدہ میں 16 سے 19 فروی 2017 تک جاری رہنے والے ’کامک کان‘ میلے میں پہلی بار خواتین بھی مردوں کے ساتھ میلے میں شریک ہوئیں، یہ فیسٹیول سعودی عرب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا۔
پہلا کامک کان فیسٹیول سعودی حکومت کے وژن 2030 کا حصہ ہے، جس کے تحت حکومت نے جدید دور کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں کی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کے لیے قدرے روشن خیال اور انٹرٹینمنٹ کے پروگرام شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
سعودی عرب کے نائب شہزادے محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے ثقافت کی ترویج کے لیے 2015 کے آخر میں وژن 2030 کے تحت سعودی معاشرے میں ثقافتی بہتری لانے کا اعلان کیا تھا۔
وژن 2030 کا منصوبہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار فراہم کرنا اورسعودی معاشرے کی قدرے محدود زندگی کو وسیع بنانا ہے، جس کے مطابق ’سعودی عرب کے باشندوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انٹرٹینمنٹ اور ثقافت کی بہتری ناگزیر ہے‘۔
لڑکیوں نے اپنے من پسند کرداروں جیسا میک اپ بھی کر رکھا تھا—فوٹو: بشکریہ سی این این
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے اجازت دینے کے بعد سعودی عرب کی مقامی کمپنی ’ٹائم انٹرٹینمنٹ‘ نے کامک میلے کا انعقاد کیا، اس سے قبل سعودی شائقین اس میلے میں شرکت کے لیے بیرون ممالک جاتے تھے۔
پہلی بار مرد و خواتین ایک ساتھ نظر آئے—فوٹو: بشکریہ سی این این
جدہ میں ہونے والے اس 3 روزہ کامک میلے میں پہلی بار نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ساتھ خواتین و مردوں کی بھی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی، جب کہ میلے میں مرد و خواتین پہلی بار حکومتی خوف کے بغیر ایک ساتھ کسی عوامی میلے میں شریک ہوئے۔
سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہونے والے اس کامک میلے کے ڈائریکٹر حشام السعید تھے۔
میلے میں شامل ہونے والے نوجوانوں نے اپنے پسندیدہ کامک کرداروں جیسے ملبوسات زیب تن کر رکھے تھے، جب کہ اس دوران کئی خواتین بھی سیلفیز لیتی اور انجوائے کرتی نظر آئیں۔
خیال رہے کہ اس قبل سعودی عرب میں گلوکاروں کو محدود اور نجی محفلوں میں پرفارمنس کی اجازت حاصل تھی، جب کہ کسی بھی عوامی میلے کا انعقاد آج تک نہیں کیا گیا تھا، جس میں مرد و خواتین ایک ساتھ شریک ہوں۔
اب وژن 2030 کے تحت اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے سالوں میں سعودی عرب میں مزید عوامی میلوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ وہاں ثقافتی پروگراموں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
حکومت کے اس ثقافتی وژن کے پروگرام کی مخالفت کرتے ہوئے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز الشیخ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سینما یا 24 گھنٹے انٹرٹینمنٹ فراہم کرنا لادینیت کے دروازے کھولے گی جب کہ غیر ملکی فلمیں مرد و زن کے اختلاط کو جنم دیں گی۔
مگر سعودی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ وژن 2030 کے تحت لوگوں کی خواہشات کو تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔