سنگاپور۔حلیمہ یعقوب سنگاپور کی پہلی خاتون صدر بن گئیں جو صدارتی انتخابات کیلئے درکار تمام شرائط کی تکمیل کرنے والی واحد امیدوار تھیں چنانچہ بلامقابلہ منتخب قرار دی گئی ہیں۔ تاہم ان کی فتح رائے دہی کے بغیر ہی انتخاب پر کی جانے والی تنقیدوں کا نشانہ بن گئی ہے۔ اس ملک کی نہ صرف پہلی خاتون بلکہ پہلی مسلم سربراہ ہوں گی۔ مالے نسل سے تعلق رکھنے والی 63 سالہ حلیمہ یعقوب جمعرات کو صدارتی رہائش و دفتر استانہ میں اس جلیل القدر عہدہ کا حلف لیں گی،
جس کی وزیراعظم لی ہیسین لونگ کے دفتر نے توثیق کی ہے۔ شرائط کے اعتبار سے اہل تسلیم کی جانے والی وہ حلیمہ واحد امیدوار تھیں۔ اس سال کا یہ انتخاب مالے نسل کے امیدواروں کیلئے محفوظ کیا گیا تھا۔ دیگر دعویداروں میں بزنسمین محمد صالح ماریکن اور فرید خاں مقابلہ کیلئے اہلیت کی بنیاد شرائط کے مطابق اہل ثابت نہیں ہوسکے۔ حلیمہ یعقوب اپنے شوہر محمد عبداللہ الحبشی کے ساتھ دفتر پہنچ کر پرچہ نامزدگی داخل کی تھیں جہاں ان کے 750 حامیوں نے پرتپا استقبال کیا۔ بعدازاں انہوں نے اپنی تنظیم پیپلز اسوسی ایشن کی عمارت کے باہر انگریزی اور مالے زبانوں میں مختصر خطاب کے دوران عوام میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ حلیمہ یعقوب نے کہا کہ ’’ہمیں ہر سنگاپوری کو متحد رہنے اور شانہ بہ شانہ چلنے کی ضرورت ہے۔ ہم ابھی بلندی کی انتہائی چوٹی پر نہیں پہنچے ہیں بلکہ انتہائی بہترین وقت آنے والا ہے۔ چنانچہ عوام کو چاہئے کہ وہ اختلافات پر نہیں بلکہ مشترکہ نظریات اور یکسانیت پر توجہ مرکوز کریں‘‘۔ سنگاپور کے پارلیمنٹ نے 2016ء میں ایک دستوری اصلاح کو منظوری دی تھی، جس کے مطابق اس ہمہ نسلی شہر نما ملک میں گذشتہ 30 سال کے دوران اس عہدہ پر فائز نہ ہونے والے نسلی گروپ کے امیدوار کیلئے باری باری سے صدارتی انتخاب محفوظ کیا جائے۔ حلیمہ یعقوب نے جن کا عہدہ عاملانہ کے بجائے علامتی اہمیت کا حامل ہے، کہا کہ وہ سب کی صدر ہیں۔ حلیمہ یعقوب 1954ء میں ایک ہندوستانی مسلم والا اور مالے نسل کی ماں کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ حلیمہ جو پانچ بچوں کی ماں ہیں، پیپلز ایکشن پارٹی سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کی تھیں اور 2001ء میں پارلیمنٹ کی رکن اور 2013ء میں پارلیمانی اسپیکر منتخب ہوئی تھیں۔ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے گذشتہ ماہ وہ اپنے ان تمام عہدوں اور پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئی تھیں۔