نئی دہلی16/جون (یو این آئی)گذشتہ کل ایک ہم فیصلہ میں مدارس ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ 31 غیر ملکیوں کے خلاف فارنر ایکٹ کے تحت قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے ملک روانہ کیاجائے کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی بہت زیادہ پریشانی برداشت کرچکے ہیں،واپس اپنے ملک جانا ان کا حق ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کی مزید قید کرونا وبا میں انہیں حاصل آزادی کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ میڈیکل ایمرجنسی میں کسی کو اس طرح جیل میں نہیں رکھا جاسکتالہٰذا نھیں جلداز جلد ان کے ممالک واپس بھیج دینا چاہئے۔جسٹس جی آر سوامی ناتھ نے اپنے فیصلہ میں کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو اچھا ہوا کہ عرض گذار وں کو کرونا پازیٹیو نہیں ہوا لیکن کیاپتہ انہیں کل ہوجائے جس کی وجہ سے ان کی جانیں خطرے میں پڑھ سکتی ہیں لہذا جب عرض گذار سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں انہیں ان کے ممالک روانہ کردینا چاہئے۔اس کے باوجود اگر انہیں جیل میں رکھا گیا تو وہ یہ غیر معقول، غیر ضروری اورغیر منصفانہ ہوگا۔
تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کو ضمانت دیتے وقت عدالت نے کہا کہ اگر عرض گذار ویزا شرائط کی خلاف ورزی کے تعلق سے معافی نامہ بذریعہ حلف نامہ دیتے ہیں تو ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے وطن بھیج دینا چاہئے نیز جیل سے رہائی کے بعد انہیں فارنرایکٹ کے تحت کیمپوں میں رکھا جائے گا۔
اسی طرح کا فیصلہ نوح کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 22/مئی کو اور سہارنپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 10/جون کو دیا تھااور ان دونوں عدالتوں نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے سبھی ممالک کے غیر ملکی تبلیغی جماعت پر غیر ملکی قوانین کے تحت عائد تمام دفعات کو بے بنیاد تسلیم کرتے ہوئے سبھی جماعتیوں کو بری کردیا تھا اور انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ جلد سے جلد سبھی جماعت والوں کو ان کے ملک بھیجنے کا انتظام کرے۔ ان لوگوں کے خلاف دونوں عدالتوں نے دفعہ 188کے تحت حکومتی احکامات کے خلاف ورزی کا ملزم قرار دیا تھا۔ ہریانہ کی عدالت نے سبھی پر ایک ایک ہزار کا جرمانہ عائد کیا تھا، جو اسی وقت ان لوگوں نے ادا کردیا، جس کے بعد انھیں رہا کردیا گیاتھا۔ ہریانہ عدالت کی جانب سے رہا کئے گئے 57غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 11، سری لنکا کے 24، ساؤتھ افریقہ کے 5، بنگلہ دیش کے 11 اور تھائی لینڈ کے 6جماعتی شامل تھے۔اور سہارنپور کی عدالت نے بھی ان غیر ملکی جماعتیوں کو دفعہ 188کا ملزم مانتے ہوئے ان کے اوپر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا اور کہا کہ یہ لوگ ایک مہینہ سے زائد کی سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں، اس لیے اب کسی طرح کے جرمانے یا سزا کی ضرورت نہیں ہے اور رہا کرنے کا حکم دیاتھا۔
جمعیۃ علمائے ہندکے صدر مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر ان دونوں معاملوں میں جمعیۃ کے ارکان اور وکلاء ان کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان رہا شدہ 57 غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 19، قرغستان کے 21، سوڈان کے 5، تھائی لینڈ کے 4، ملیشیا کے 2، اور اسپین،شام، فلسطین، سعودی عرب، فرانس، مالی کے ایک ایک شامل ہیں۔ لیکن مقامی پولس نے ابھی تک غیر ملکیو ں کو ان کے ملک روانہ نہیں کیا جبکہ وہ سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں اور حلف نامہ بھی داخل کرنے کی رضا مندی دی ہے اس کے باوجود انتظامیہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، جس کی عدالت سے شکایت کرنا چاہئے۔
مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کا تجزیہ کرتے ہو ئے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پولس پر دباؤ رہے گاکہ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو ہندوستان سے بھیجے کا لائحہ عمل تیار کرے اوران کی جانب سے ضبط کیئے گئے ان کے پاسپورٹ کو بھی ان کے حوالے کرے پھر بھی اگر پولس اس تعلق سے ٹال مٹول کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی جو توہین عدالت ہوگا۔مقامی وکلاء کو مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں مجسٹریٹ عدالتوں اور سیشن عدالتوں سے رجوع ہوناچاہئے تاکہ جلد از جلدتبلیغی جماعت سے وابستہ تمام غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جاسکے۔