سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی نماز جنازہ کراچی میں ادا کردی گئی جہاں اب سے کچھ دیر بعد ان کی تدفین کی جائے گی۔ سابق آرمی چیف اتوار کے روز امائلائیڈوسس نامی غیر معمولی بیماری کے ساتھ طویل جنگ کے بعد انتقال کر گئے تھے، ان کی عمر 79 برس تھی۔
سابق صدر کی نماز جنازہ ملیر کینٹ کراچی کے پولو گراؤنڈ میں ادا کی گئی، کالا پل، چنیسر گوٹھ کے قریب واقع آرمی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔
نماز جنازہ میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، اشفاق پرویز کیانی اور اسلم بیگ نے شرکت کی۔
آل پاکستان مسلم لیگ کی تشکیل کے بعد سے پرویز مشرف کے کراچی میں ترجمان طاہر حسین نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام، پی ٹی آئی رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔
انہوں نے بتایا کہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار، سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور پرویز مشرف کے بیٹے بلال سمیت دیگر سیاستدان اور نمایاں سماجی شخصیات نماز جنازہ میں شریک تھیں۔
اگرچہ حکام کی جانب سے ان کی تدفین سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن اس سے قبل اپنے ایک بیان میں سابق صدر کے قریبی ساتھی نے کہا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی تدفین مکمل ریاستی اور فوجی پروٹوکول کے ساتھ کی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا انہیں پورے فوجی اعزاز اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے سہولیات فراہم کیے جانے کے بعد دبئی سے خصوصی طیارہ سابق فوجی حکمران کی میت کو ان کے اہل خانہ کے ہمراہ لے کر پیر کی رات کراچی ایئرپورٹ پہنچا تھا، ملٹری پولیس کی بھاری نفری کے حصار میں ان کا تابوت کمبائنڈ ملٹری ہسپتال ملیر کینٹ لے جایا گیا تھا۔
طیارہ اترنے سے چند گھنٹے قبل ہی ملٹری پولیس نے پاکستان رینجرز کے ہمراہ کراچی ایئرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل کو اپنے حصار میں گھیرے میں لے لیا تھا جب کہ اس دوران ملیر کینٹ جانے والے تمام راستے پر بھی سخت سیکیورٹی دیکھی گئی تھی۔
گزشتہ روز دبئی میں پاکستان کے قونصلیٹ جنرل نے سابق فوجی حکمران کی میت کی وطن واپسی کے لیے این او سی جاری کیا تھا۔
پرویز مشرف تقریباً 9 سال (1999 سے 2008) تک آرمی چیف رہے، وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر بر سر اقتدار آئے تھے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔
سابق ڈکٹیٹر پر مارچ 2014 میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پر غداری کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔
سابق فوجی حکمران مارچ 2016 میں علاج کے لیے دبئی چلے گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ پاکستان واپس نہیں آئے تھے۔