سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیف جسٹس آف انڈیا کے بعد آنے والے چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کی اور واضح الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اس کو سیاہ دن نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے جس میں جسٹس چیلیمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کورین جوزف شامل ہیں وہ آج میڈیا کے سامنے آئے اور انہوں نے سپریم کورٹ کی کارکردگی پر ہی سوال کھڑے کر دئے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس چیلمیشور نے کہا کہ’’سپریم کورٹ کی انتظامیہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہی ہے اور اگر ایسے ہی چلتا رہا تو جمہوری صورت حال خراب ہو جائے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس مدے پر انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے بات کی تھی لیکن انہوں نے بات نہیں سنی۔ جسٹس چیلیمیشور نے کہا کہ ’’ہم نے اپنی روح بیچ دی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ جسٹس چیلیمشور سپریم کورٹ میں نمبر دو کے جج ہیں۔
وہ خط جو چیف جسٹس آف انڈیا کو تحریر کیا گیا تھاجسٹس چیلمیشور نےکہا کہ اگر انہوں نے ملک کے سامنے یہ باتیں نہیں رکھیں اور وہ نہیں بولے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا ’’ہم سبھی 4 ججوں نے 4 مہینے قبل چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھ کر سپریم کوٹ کی انتظامیہ سے وابستہ مدے اٹھائے تھے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک ان مدوں سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
غور طلب ہے کہ چیف جسٹس کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس چیلا میشورم نے دیگر ججوں رنجن گوگوئی، مدن لوکور اور کورین جوزف کے ساتھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کے قانون کے لیے آج کا دن بہت بڑا ہے۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے کیونکہ ہمیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے پریس کانفرنس اس لیے کی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی ہے۔
ان چاروں جج حضرات نے چیف جسٹس کے طریقۂ کار کی مخالفت کرتے ہوئے چار ماہ قبل انھیں ایک مکتوب لکھا تھا جس میں انتہائی اہم مقدمات کو ان لوگوں سے لے کر جونیئر ججوں کے حوالے کرنے پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی تھی۔
پریس کانفرنس کے دوران ججوں کا کہنا تھا کہ انھیں سہراب الدین جعلی مقابلے کی تحقیقات کرنے والے جسٹس بی ایچ لویا کی پراسرار موت کے معاملے کو ایک جونیئر بینچ کے سپرد کرنے پر بھی تحفظات ہیں۔
ججوں نے کہا کہ جسٹس لویا کی موت کے بارے میں دائر مفادِ عامہ کی عذرداری کو سماعت کے لیے پہلے چار بینچوں کے بجائے کورٹ نمبر دس کے سپرد کیا گیا۔
ججوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنی گزارشات کے ساتھ جسٹس دیپک مشرا سے ملاقات کی تھی مگر وہ قائل نہیں ہوئے۔ لہٰذا ان کے بقول ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم میڈیا کے توسط سے قوم سے مخاطب ہوں۔
ججوں نے کہا کہ انہوں نے اصلاحی قدم اٹھانے کی کئی بار کوشش کی مگر بد قسمتی سے وہ ناکام رہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ سپریم کورٹ میں ایڈمنسٹریشن ٹھیک نہیں چل رہی ہے۔
جج حضرات نے کہا کہ چیف جسٹس مساوی حیثیت کے ججوں میں اول ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر عدلیہ غیر جانبدار نہیں رہے گی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں مگر چیف جسٹس اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
جب ان ججوں سے پوچھا گیا کہ کیا چیف جسٹس کو ان کے منصب سے برطرف کر دیا جانا چاہیے؟ تو انھوں نے کہا کہ قوم کو ان کے مواخذے کے بارے میں فیصلہ کرنے دیا جائے۔
چاروں ججوں نے بیک آواز کہا کہ عدلیہ میں بہت سی ناپسندیدہ باتیں ہو رہی ہیں۔
نیوز کانفرنس سے چند منٹ قبل سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ جسٹس لویا کی پراسرار موت ایک سنگین معاملہ ہے اور عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزات پیر کو عدالت میں پیش کرے۔
جسٹس لویا گجرات کے سہراب الدین جعلی مقابلے کی سماعت کر رہے تھے جس میں بی جے پی کے صدر امت شاہ کلیدی ملزم ہیں اور وہ اس معاملے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔
جج کے اہلِ خانہ نے ان کی پراسرار موت پر سوال اٹھایا تھا اور ان کی ایک بہن نے الزام لگایا تھا کہ انھیں کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔
وہ کئی ججوں کے ساتھ ایک شادی میں گئے ہوئے تھے جہاں رات کو پراسرار طور پر ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لے کر کارروائی کرنے کی اپیلیں کی گئی تھیں لیکن عدالت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔
جج حضرات نے جو مکتوب لکھا ہے اس میں انھوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس مقدمات کی تقسیم میں قوانین کی پابندی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اہم معاملوں کو جو سپریم کورٹ کی یکجہتی کو متاثر کرتے ہوں اپنی پسند کے بینچوں کے حوالے کر دیتے ہیں جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔
جمعے کو ہونے والی ججوں کی پریس کانفرنس میں کئی سینئر وکلا نے بھی شرکت کی جن میں سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی بھی شامل تھے۔ بعض سابق ججوں نے بھی پریس کانفرنس کرنے والے جج حضرات کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔