فرانس میں گزشتہ ہفتے سے اسکول کے طلبہ و طالبات کی حجاب پہننے والی ماؤں کے متعلق نیا قانون زیر بحث ہے۔ فرانس کی سینیٹ نے رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو ایک قانونی بل کی منظوری دی تھی۔ اس قانون کی ایک شق یہ کہتی ہے کہ جو مائیں حجاب پہنتی ہیں وہ اسکول کی جانب سے منتظم دوروں میں اپنے بچوں کے ہمراہ نہیں جا سکیں گی۔
فرانس میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے اس قانون کے خلاف ایک پٹیشن سامنے لائی گئی ہے جس پر تیزی کے ساتھ دستخط کی مہم جاری ہے۔ پٹیشن کا مقصد بل میں شامل مذکورہ شق پر عمل درامد کو رکوانا ہے۔
فرانس کی اسمبلی نے قانون کو پہلی مرتبہ پیش کیے جانے پر اسے مسترد کر دیا تھا۔ تاہم سینیٹ کی جانب سے چند روز قبل اسے 100 کے مقابلے میں 186 ووٹوں سے منظور کر لیا گیا جب کہ 159 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ یہ قانونی بل حتمی فیصلے کے لیے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ یہاں اس کے منظور ہونے کے امکانات کم ہیں کیوں کہ ارکان کی اکثریت کا تعلق صدر عمانوئل ماکروں کی جماعت سے ہے۔ لہذا امید ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے اسے ایک بار پھر مسترد کر دیا جائے گا۔
فرانس کے وزیر تعلیم جان میشیل بلانکر اس ترمیم کے مخالف تھے۔ انہوں نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران اُن نتائج کے حوالے سے اندیشوں کا ذکر کیا جو اس قانون کے لاگو ہونے کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ بلانکر کا کہنا تھا کہ “اس حوالے سے قانون سازی کی صورت میں برعکس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ تاہم میں اُن لوگوں کا احترام کرتا ہوں جو اس کے بر خلاف سوچ رہے ہیں”۔
اس بل کی قرار داد نے فرانس میں مسلمانوں کے بعض حلقوں کو دھچکا پہنچایا ہے۔ اگرچہ قانون میں حجاب کو نام لے کر ذکر نہیں کیا گیا تاہم اسکول کی سرگرمیوں کے دران مذہبی علامتوں کے استعمال پر پابندی کے ذریعے حجاب بھی ممنوع امور میں آ گیا ہے۔