یورپی پارلیمنٹ کے فرانسیسی رکن رافیل گلکسمین نے کہا ہے کہ فرانس کو مجسمہ آزادی واپس لے لینا چاہیے کیونکہ امریکہ اب ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتا جس کی وجہ سے فرانس نے مجسمہ پیش کیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فرانس کو مجسمہ آزادی کو واپس لے لینا چاہیے کیونکہ امریکا اب ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتا جن کی وجہ سے فرانس نے اسے مجسمہ پیش کیا تھا۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رافیل گلکسمین نے اپنی پلیس پبلک سینٹر لیفٹ موومنٹ کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں مجسمہ آزادی واپس دے دو‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان امریکیوں سے کہیں گے جنہوں نے ظالموں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، ان امریکیوں سے جنہوں نے سائنسی آزادی کا مطالبہ کرنے پر محققین کو برطرف کر دیا، کہ ’ہمیں مجسمہ آزادی واپس دے دو‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے تمہیں یہ بطور تحفہ دیا ہے، لیکن ظاہر ہے تم اس سے نفرت کرتے ہو،لہٰذا یہ یہاں گھر میں یہ ٹھیک رہے گا‘۔
مجسمہ آزادی کی نقاب کشائی 28 اکتوبر 1886 کو امریکی اعلان آزادی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پرکی گئی تھی، یہ مجسمہ فرانسیسی عوام کی جانب سے امریکا کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا، اسے فرانس کے آگسٹ بارتھولڈی نے ڈیزائن کیا ہے۔
پیرس ٰمیں سین کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر مجسمے کی ایک چھوٹی سی کاپی موجود ہے، یوکرین کے کٹر حامی گلکسمین نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ کے بارے میں امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی پر سخت تنقید کی ہے۔
انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے امریکی تحقیقی اداروں میں کٹوتیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے فرانسیسی حکومت نے پہلے ہی ان میں سے کچھ کو فرانس میں کام کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔
گلکسمین نے مزید کہا کہ ’دوسری بات جو ہم امریکیوں سے کہنے جا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے بہترین محققین کو برطرف کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ ان تمام لوگوں کو برطرف کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنی آزادی اور جدت طرازی کے احساس، شک اور تحقیق کے ذائقے کے ذریعے آپ کے ملک کو دنیا کی صف اول کی طاقت بنا دیا ہے، تو ہم ان کا خیر مقدم کریں گے‘۔
جب سے ٹرمپ جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آئے ہیں، ان کی حکومت نے وفاقی تحقیقی فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے اور صحت اور آب و ہوا کی تحقیق پر کام کرنے والے سیکڑوں وفاقی ملازمین کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہے۔