فرانس کے حکام نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کے شہبے میں ایئرپورٹ سے سعودی عرب کے شہری کی گرفتاری کو غلطی قرار دے کر ان کو رہا کردیا۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پیرس کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے شہری کی گرفتاری غلطی ثابت ہونے پر رہا کردیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایئرپورٹ پر چیکنگ کے دوران پاسپورٹ کے اسکینگ پر یہ معلومات سامنے آئی تھی کہ ترکی نے اس نام سے وارنٹ جاری کر رکھا ہے تاہم مزید تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ وارنٹ ان پر اپلائی نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار شخص کی تفصیلی چیکنگ سے ظاہر ہوا کہ ترک حکومت کے وارنٹ ان سے متعلق نہیں ہیں اور انہیں رہا کردیا گیا۔قبل ازیں پیرس میں سعودی سفارت خانے کی جانب سےجاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے سے سعودی عرب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
پیرس میں سعودی عرب کے شہری کی گرفتاری ایک ایسے موقع پر ہوئی تھی جب چند روز قبل ہی فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔
فرانسیسی صدر کا دورہ ترکی میں جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کسی بڑے مغربی ملک کے سربراہ کا پہلا دورہ سعودی عرب تھا۔ یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی
خیال رہے کہ گزشتہ روز فرانسیسی پولیس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث اسکواڈ کے ایک ملزم کو گرفتارکرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
فرانسیسی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ 33 سالہ خالد العُطیبی کو ترکی کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کی بنیاد پر سرحدی پولیس نے حراست میں لیا، ملزم پیرس کے شارل دی گول ائیر پورٹ سے ریاض جانے کے لیے پرواز میں سوار ہورہا تھا تب پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ملزم ان 26 سعودیوں میں سے ایک ہے جنہیں ترکی نے اکتوبر 2020 سےشروع ہونے والے مقدمے میں مفرور قرار دیا تھا اور گرفتار ملزم پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
ترکی میں جن 26 ملزمان کی غیرموجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ان میں سے 2 افراد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سابق معاونین ہیں، ترکی میں کسی بھی سعودی عہدیدار کو قتل کے لیے ذاتی طور پر عدالت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔
خالد العُطیبی ان 17 افراد میں سے ایک ہیں جن پر امریکا نے 2018 کے قتل میں ملوث ہونے کے سبب سرزمین پر داخلے کی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار ملزم کے پاس یہ حق ہے کہ وہ ترکی بے دخل کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو فرانسیسی عدلیہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں ترک حکومت کی درخواست پر بدستور زیر حراست رکھا جائے یا فرانس نہ چھوڑنے کی شرط پر رہا کردیا جائے۔
ستمبر 2020 میں سعودی عدالت نے بند کمرے میں کیے گئے فیصلے میں سزائے موت کے 5 فیصلوں کو ملزمان کی 20 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔