میکرون نے حال ہی میں کہا تھا کہ یوکرین میں روسی تشدد کی کارروائیوں کو نسل کشی نہیں کہا جانا چاہیے، جب کہ فرانس نے سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے لیے آرمینیائی باشندوں کے تناظر میں اس اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ 24 فروری سے روس اور یوکرین تنازعہ بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے، مغرب کے تمام طبقوں کے سیاست دانوں اور رہنماؤں نے روسی فوج کی طرف سے مبینہ طور پر یوکرائنی شہریوں کے خلاف کیے گئے جنگی جرائم کی تعریف پر خود کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قتل عام پر متحارب فریقوں کے باہمی الزامات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، امریکی صدر جو بائیڈن نے روس پر یوکرین میں نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے، روسی صدر پوٹن پر “یوکرائنی ہونے کے تصور کو مٹانے کی کوشش” پر تنقید کی۔
یوکرین کے موجودہ تنازعے کے حوالے سے بائیڈن واحد مغربی رہنما نہیں ہیں جنہوں نے روس پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ امریکی صدر، دیگر تمام لوگوں میں سےایک ہیں جوماسکو پر یوکرین کے خلاف نسل کشی کا الزام لگاتے ہیں، جب کہ واشنگٹن نے حالیہ دہائیوں میں، “دہشت گردی کے خلاف جنگ” یا “بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے قبضے” کے بہانے کئی ریاستوں میں فوجی مداخلت کی ہے۔ جیسے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا۔ امریکی فوج کی کارروائیوں میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے اور صرف عراق میں دس لاکھ سے زیادہ شہری مارے گئے۔
اقوام متحدہ کا نسل کشی کنونشن
سب سے پہلے، نسل کشی کی اصطلاح ایک قانونی تعریف ہے۔ یہ یونانی الاصل لفظ، نزول (genos) اور لاطینی لفظ caedere سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب قتل اور ذبح کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کا پس پردہ محرک، جو 1948 میں اپنایا گیا تھا اور 1951 میں نافذ ہوا تھا، اصل میں پولینڈ کے یہودی فقیہ رافیل لیمکن کی طرف سے آیا تھا۔
سادہ الفاظ میں، نسل کشی کی اصطلاح “کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے” کے ارادے سے کیے جانے والے تمام جرائم کااحاطہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے رجسٹر کے مطابق، یہ امریکہ ہی تھا جس نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کو اپنانے کے بعد دو تحفظات رکھے اور مفاہمت کا تفصیلی بیان جاری کیا۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرین میں روسی فوج کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دینے سے انکار کر دیا ہے۔ میکرون کے خیال میں، محض”الفاظ میں اضافہ” کرنے سے امن قائم کرنے میں مدد نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ روسی فوج نے بے شک یوکرین میں جنگ چھیڑ دی تھی لیکن وہ ایسی اصطلاح استعمال کرنے سے محتاط رہے ہیں۔ ایک فرانسیسی ریڈیو سٹیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے میکرون نے واضح طور پر کہا کہ نسل کشی کی اصطلاح کی تعریف وکلاء کو کرنی چاہیے نہ کہ سیاستدانوں کو۔
موقع پرست نقطہ نظر
امریکی صدر بائیڈن اور فرانسیسی صدر میکرون دونوں نے یوکرین میں روسی فوج کی کارروائیوں پر تبصرہ کیا ہے، اور نسل کشی کی اصطلاح کے بارے میں گھمبیر موقع پرستانہ رویہ دونوں صدور کے ریمارکس سے واضح ہے۔
نسل کشی جیسی اصطلاحات کے غیر تنقیدی استعمال میں مغرب کا دوہرا معیار بالکل سامنے آتا ہے۔ جب سیاسی مفادات بین الاقوامی طور پر پابند معاہدوں جیسے کہ اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن ہے،پر فوقیت رکھتے ہیں تو اس اصطلاح کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ھے۔ اور کنونشن کو برسوں سے آرمینیائی لابی تنظیموں اور ان کے حامیوں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔
کیا یہ فرانسیسی پارلیمنٹ نہیں تھی جس نے 2001 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران آرمینیائی آبادی کی دوبارہ آبادکاری کو “نسل کشی” قرار دیا تھا؟ کیا ایمانوئل میکرون نے 2019 میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے فرانس میں بااثر آرمینیائی ووٹرز سے انتخابی وعدہ پورا کرنے کےلیے “24 اپریل یوم یادگاری” کا اعلان نہیں کیا ؟
الجزائر میں فرانسیسی نوآبادیاتی جرائم
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس وقت کی فرانسیسی کالونی الجزائر میں آزادی کی تحریک چلی جس کا فرانس نے تشدد سے مقابلہ کیا۔ اس عمل میں، ابتدائی طور پر کئی دسیوں ہزار الجزائری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نوآبادیاتی مخالف الجزائر کی آزادی کی جنگ کے نتیجے میں 15 لاکھ الجزائری مارے گئے۔ فرانس کے معافی مانگنے کواور معاوضے کی بات کو ایک طرف رہنے دیں، وہ تو الجزائر میں اپنے نوآبادیاتی جرائم کو تسلیم کرنے سےہی انکار کرتا ہے۔
فرانس ترکی پر عثمانی آرمینیائیوں کے خلاف “نسل کشی” کا الزام لگانے کے لیے ہمیشہ موقع پر موجود رہتا ہے لیکن سلطنت عثمانیہ کے خلاف پہلی جنگ عظیم کے دوران اپنی شرکت کو چھپاتا ہے۔ اس نے نہ صرف ترک شہروں جیسے کہ ادانا، انتیپ، ماراس، مرسین، عثمانیہ اور عرفا پر قبضہ کیا بلکہ اس نے باغی آرمینیائی ملیشیا کو ہتھیاروں اور گولہ بارود سے مدد فراہم کی۔
مزید برآں، بہت سے آرمینیائی ،فرانسیسی فوج اور آرمینیائی لشکر کی صفوں میں لڑ رہے تھے جس نے منظم طریقے سے ترک مسلم شہری آبادی کا قتل عام اور لوٹ مار کی۔
مشرقی اناطولیہ میں تباہی اور ہولناکی کی ایک مثال، ترکی کی مسلم آبادی کے خلاف آرمینیائی مظالم کے نتیجے میں کھودی گئی بہت سی اجتماعی قبروں سے عیاں ہے۔ مثال کے طور پر، مشرقی اناطولیہ کے شہر اگدیر میں، آرمینیائی یونٹوں نے نہتے شہریوں پر حملہ کیا، اور سینکڑوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا۔ صرف موس کے قصبے میں، آرمینیائی ملیشیا نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق 2,800 افراد ہلاک ہوئے۔
16 فروری 1916 کو مشرقی اناطولیہ کے شہر ایرزورم پر روسی زارسٹ فوج کے قبضے کے بعد، آرمینیائی ملیشیا نے اورتاباشے (سینیس) گاؤں کے 587 باشندوں کو مسجد میں قید کر لیا اور مسلمانوں کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی، جس سے اندر موجود تمام افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس قتل عام کے بارے میں ان ہلاک شدگان کے اہل خانہ کی طرف سے شہادتیں موجود ہیں جنہوں نے آرمینیائیوں کے مظالم کو دیکھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، مشرقی اور جنوب مشرقی اناطولیہ میں ترک آبادی کے خلاف آرمینیائی ملیشیا کی طرف سے کیے گئے اجتماعی قتل کی وجہ سے 524,000 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آرمینیائی بیانیہ پر یک طرفہ زور
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگی علاقوں سے آرمینیائی آبادی کی دوبارہ آباد کاری کے دوران بہت سے آرمینی باشندے وبائی امراض، بھوک، تھکن اور لٹیرے گروہوں کے حملوں کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ان حالات میں بھی عثمانی سلطنت نے تحفظ اور خوراک کی فراہمی کے منصوبے بنائے تھے۔ تاہم، آبادکاری کے معاملے کو آرمینیائی حامیوں کے یک طرفہ نقطہ نظر سے پیش کیاگیا، جس میں صرف آرمینیائی بیانیے پر زور دیا گیا ہے اور دوبارہ آبادکاری کے فیصلے کے ذمہ داروں کے لیے تباہی کے ارادے کا الزام لگایا گیا ہے جو اس شکل میں موجود نہیں تھے۔
ترکی نے بارہا ، پہلی جنگ عظیم کے دوران ہونے والے واقعات کی تحقیق کے لیے مورخین کے ایک مشترکہ کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی ہے، لیکن آرمینیائی حکومت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ آرمینیائی باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر آلہ کار بنا کر اوراس پر سیاست کرنے سے، ترک مخالف ناراضگی کو ہوا دی جاتی ہے، جو انتخابی مہموں میں سیاست دانوں یا آرمینیائی مفاد پرست گروہوں کے لیے مفید ہو سکتی ہے، لیکن تاریخی مصائب کی دیانتداری سے دوبارہ تشخیص کے لیے سازگار نہیں ہے۔