فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فرانس چند ماہ کے اندر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور جون میں نیویارک میں تنازع کے حل سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس ہفتے مصر کا دورہ کرنے والے میکرون نے فرانس فائیو ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ ’ہمیں فلسطین تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا ہوگا، اور ہم آنے والے مہینوں میں ایسا کریں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد جون میں سعودی عرب کے ساتھ اس کانفرنس کی صدارت کرنا ہے، جہاں ہم متعدد فریقوں کی طرف سے باہمی تسلیم کی اس تحریک کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔
صدر میکرون نے کہا کہ ’میں ایسا کروں گا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ کسی وقت یہ درست ہوگا، اور کیوں کہ میں ایک اجتماعی تحریک میں بھی حصہ لینا چاہتا ہوں، جس میں فلسطین کا دفاع کرنے والے تمام افراد کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اجازت بھی دی جانی چاہیے، جو ان میں سے بہت سے لوگ نہیں کرتے‘۔
تقریباً 150 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، مئی 2024 میں آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
میکرون نے کہا کہ اس طرح کے اعتراف سے فرانس کو ’ان لوگوں کے خلاف ہماری جنگ میں واضح ہونے کا موقع ملے گا، جو اسرائیل کے وجود کے حق سے انکار کرتے ہیں، (جیسا کہ ایران ہے) اور خطے میں اجتماعی سلامتی کے لیے خود کو پرعزم کرنے کا موقع ملے گا۔
پیرس کی جانب سے باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کیا جانا پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی، اس اقدام اسرائیل اور امریکا کی پریشانی بڑھنے کا خطرہ ہے۔
فلسطین کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ ورسین شاہین نے کہا ہے کہ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کا درجہ تسلیم کرنا فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ اور دو ریاستی حل کی سمت میں ایک قدم ہوگا۔
مصر میں میکرون نے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی، اور یہ بھی واضح کیا کہ وہ غزہ اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں کسی بھی طرح کی نقل مکانی یا الحاق کے سخت مخالف ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ بنانے کی تجویز دے رکھی ہے، اور فلسطینیوں کو کہیں اور منتقل کرنے کی تجویز دی ہے، جس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
میکرون نے جواب دیا کہ غزہ کی پٹی ’رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ نہیں ہے‘، انہوں نے ٹرمپ کے نام ایک پیغام میں کہا کہ ’سادہ سوچ کبھی کبھی مدد نہیں دیتی‘۔
ٹرمپ کے نام ایک پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری ذمہ داری زندگیاں بچانا، امن بحال کرنا اور سیاسی فریم ورک پر بات چیت کرنا ہے، اگر یہ سب موجود نہیں ہے، تو کوئی بھی سرمایہ کاری نہیں کرے گا، آج کوئی بھی غزہ میں ایک فیصد بھی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔