1971میں پینٹاگون پیپرز سے لے کر حالیہ پینٹاگون لیکس تک، امریکہ کے پاس موجودخفیہ دستاویزات کے پبلک ڈومین میں آنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
ایک فوجی اور اقتصادی سپر پاور کے طور پر، امریکہ عالمی سطح پر اپنے سب سے وسیع انٹیلی جنس جمع کرنے والے نیٹ ورک کے لیے جانا جاتا ہے۔
کئی دہائیوں سے، یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ نے اس پر بحث مباحثہ کیا ہے کہ کتنی معلومات کا عوامی طور پر اشتراک کیا جا سکتا ہے اور کن معلومات کو عوا م اور میڈیا پر سامنے آنے سے روکا جاسکتا ہے۔
تاہم سرکاری ملازمین کی جانب سے متعدد بار خفیہ مواد کے افشاء کے بعد عالمی میدان میں امریکی ساکھ کو کئی مرتبہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان سکینڈلز نے نہ صرف ملک کے سفارتی تعلقات کو متاثر کیا ہے بلکہ امریکی شہریوں کی نظروں میں خود امریکی ریاست اور حکومت بھی کو بدنام بھی کیا ہے۔
امریکی فوجی دستاویزات کا ایک ذخیرہ، جن میں سے کچھ انتہائی درجہ بند حیثیت کے حامل ہیں، نے حال ہی میں سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے عوامی ڈومین میں اپنا راستہ تلاش کیا ہے، جو کہ اسی طرح کے واقعات کی طویل تاریخ میں تازہ ترین ہے۔
خفیہ دستاویزات کے لیک ہونے پر امریکی تاریخ کے پانچ شرمناک ادوار یہ ہیں۔
پینٹاگون پیپرز۔
سرکاری طور پراسے “سیکرٹری آف ڈیفنس ویتنام ٹاسک فورس کے دفتر کی رپورٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے، پینٹاگون پیپرز امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ معروف لیکس میں سے ایک ہے۔
خفیہ مواد — جو 1971 میں سیاسی کارکن اور فوجی تجزیہ کار ڈینیئل ایلسبرگ نے لیک کیا — نے ظاہر کیا کہ امریکی حکومت کس طرح ویتنام جنگ کی پیشرفت کے بارے میں عوام سے جھوٹ بول رہی تھی ۔ حقیقی میدان میں اسے شکست کا سامنا تھا اور حکام کو جنگ کی جیت کے بارے میں شدید شکوک و شبہات تھےجبکہ عوام سے ان حقائق کو دانستہ طور پر چھپایا جارہاتھا۔
یہ لیک رچرڈ نکسن کی صدارت کے دوران ہوئی لیکن اسے اس وقت فائل کیا گیا جب نکسن اقتدار میں نہیں تھا
وکی لیکس۔
آئس لینڈ کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ملکیت میں، وکی لیکس نے لاکھوں صفحات پر مشتمل اعلیٰ ترین امریکی حکومتی دستاویزات شائع کیں، جن میں فوجی رپورٹس اور سفارتی روابط کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔
امریکی فوجی چیلسی میننگ – جسے پہلے بریڈلی میننگ کے نام سے جانا جاتا تھا – جس کی خفیہ مواد تک رسائی تھی، نے 2010 میں دستاویزات کو لیک کیا۔
حکومتی ریکارڈ میں عراق اور افغانستان میں قیدیوں پر تشدد، امریکی فوجیوں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات کے بارے میں تفصیلات شامل تھیں۔
یہ براک اوباما کی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا جسے قیدیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی بد سلوکی کی خبروں اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر قابو پانے کے لیے بڑی سخت جدوجہد کرنی پڑی۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے میننگ کے فراہم کردہ مواد کو شائع کیا۔ اسانج کو برطانوی حکام نے قید کر رکھا ہے اور وہ امریکہ کے حوالے کیے جانے کے منتظر ہیں۔ اسانج کے حامیوں نے اس کی آزادی کے حق میں بار بار مظاہرے کیے ہیں لیکن امریکی حکومت نے اس کے خلاف کاروائی کو مؤخر نہیں کیا ۔ اسانج کے حامیوں کا موقف ہے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ آزادئی اظہار رائے کے زمرے میں آتا ہے ۔ میننگ نے سات سال قید کاٹی لیکن اوباما نے 2017 میں اس کی 35 سال کی سزا کو کم کر دیا۔ سنوڈن کے انکشافات۔
نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے 2013 میں خفیہ سرکاری مواد کا انکشاف کیا تھا جس نے امریکہ کے وسیع نگرانی کے پروگراموں کو بے نقاب کیا تھا۔اس میں دوست ممالک کی جاسوسی کے پروگرام بھی شامل تھے۔
فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس دنیا بھر میں امریکیوں اور غیر ملکیوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے، جس میں فون کالز، ای میلز اور انٹرنیٹ سرگرمی شامل ہے۔
اوباما کی انتظامیہ جو خود کو ایک جمہوری اور حامی حکومت کے طور پر پیش کرتی تھی سنوڈن اسکینڈل سے ایک بار پھر متاثر ہوئی۔
جاسوسی اور سرکاری املاک کی چوری کا الزام لگانے والا، امریکہ سے بھاگ کر روس چلا گیا اور شہریت حاصل کر لی۔ 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روسی حکومت 2016 کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہلیری کلنٹن کے خلاف اس وقت ہونے والے انتخابات میں ملوث تھی۔
ریئلٹی ونر، ایک سابقہ فضائیہ کے ماہر لسانیات، نے 2018 میں تحقیقاتی نیوز آؤٹ لیٹ، دی انٹرسیپٹ کو رپورٹ لیک کرنے کے لیے جرم قبول کیا۔
ونر کو پانچ سال سے زیادہ قید کا سامنا کرنا پڑا لیکن “قید کے دوران مثالی رویے سے حاصل ہونے والے وقت” کی وجہ سے اسے پہلے رہا کر دیا گیا تھا۔
اس لیک نے امریکی انتخابات کی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات پیدا کیے اور روسی مداخلت کے حوالے سے جاری تحقیقات کا باعث بنے۔روس نے ایسے کسی بھی عمل کے ارتکاب سے مسلسل انکار کیا ۔ ایک موقع پر مسلسل تنقید کے جواب میں روسی صدر نے طنزا” امریکی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ دوسروں پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنی سائبر سیکورٹی پر توجہ دیں۔
پینٹاگون لیکس
وکی لیکس کی جانب سے 700,000 دستاویزات کے انکشاف کے بعد سے 2023 کے لیک کو ڈیٹا کے تحفظ کی سب سے سنگین ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
انکشاف شدہ مواد یوکرین کی فوجی صلاحیتوں اور کوتاہیوں کو ظاہر کرتا ہے، اور امریکی اتحادیوں بشمول اسرائیل، جنوبی کوریا، چین اور واشنگٹن کے لیے کام کرنے والے دنیا بھر کے ممکنہ جاسوسوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے حکام نے ایک 21 سالہ ایئر مین جیک ٹیکسیرا کو انٹیلی جنس لیک کے ایک مشتبہ کے طور پر حراست میں لیا ہے۔
امریکی حکام سیکورٹی کی خلاف ورزی سے ہونے والے نقصان کا اندازہ نہیں لگا سکے ہیں، تاہم دستاویزات مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کر رہی ہیں۔