جرمنی کی پولیس نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں سے متاثر دائیں بازو کے سخت گیر نظریاتی 21 سالہ ملزم کو مبینہ طور پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے خدشے پر گرفتار کرلیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ شمالی شہر ہلدیشیئم سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ ملزم نے انٹرنیٹ میں ایک بیان میں حملے سے متعلق اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تھا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم دنیا بھر میں میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مخصوص وقت میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنی گفتگو میں کرائسٹ چرچ واقعے کا حوالہ دیا تھا جہاں دو مساجد میں حملوں میں 51 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ملزم نے کہا تھا کہ وہ اسی سے ملتا جلتا حملہ کرنا چاہتا ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘ملزم کا مقصد مسلمانوں کو قتل کرنا تھا’۔
جرمن پولیس نے ملزم کے خلاف کارروائی کے دوران ان کے قبضے سے الیکٹرانک فائلز بھی برآمد کرلیں جس میں دائیں بازو کے سخت گیر نظریات کا مواد موجود ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم کو دو روز قبل گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد اس پر جرائم کرنے کا ارادہ اور اسلحہ خرید کر کشیدگی کو ہوا دینے کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ جرمنی میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران دائیں بازو کے سخت گیر افراد کی جانب سے کئی حملے کیے جاچکے ہیں۔
جرمنی میں گزشتہ برس اکتوبر میں لیپزگ کے قریب حملے میں کم از کم 2 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فروری میں فرینکفرٹ میں شیشہ بار اور کیفے میں حملہ کیا گیا تھا جہاں 9 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
جون 2019 میں مہاجرین سے ہمدردی رکھنے والے سیاست دان کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا جس کے الزام میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیفر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دائیں بازوں کے انتہا پسند جرمنی میں جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں، تاہم انہوں نے سیکیورٹی سخت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
جرمنی کی پولیس نے 15 فروری کو سیاست دانوں، پناہ کے خواہش مند اور مسلمانوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دائیں بازو کے انتہا پسند گروہ کے خلاف ملک بھر میں جاری تفتیش کے نتیجے میں اپنے افسران سمیت 12 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔
وزارت داخلہ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ گرفتاریاں جرمنی کی 6 ریاستوں میں 13 مقامات پر مسلح اسپیشل یونٹس کی جانب سے چھاپوں کے نتیجے میں عمل میں آئیں۔
فیڈرل پراسیکیوٹر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ گرفتار شدہ افراد میں ’4 مرکزی ملزمان اب تک غیر واضح طور پر سیاستدانوں، پناہ کے طلب گار اور مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کر کے خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے تھے‘۔
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ میں مارچ 2019 میں کرائسٹ چرچ میں موجود 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں حملہ آور نے اس وقت داخل ہو کر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔
مسجد میں فائرنگ کرنے والے شخص نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی، جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہٹادیا گیا۔
پولیس نے مساجد پر حملہ کرنے والے 28 سالہ دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تھا جہاں ملزم پر قتل کا الزام عائد کردیا گیا تھا۔