جرمنی میں ہر چھٹا فرد غربت کے خطرے سے دوچار ہے۔ گیس، بجلی اور اشیائے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس امیر ملک کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئے چیلنج کا سبب بن رہی ہیں۔
سڑکوں پر شب بسری کرنے والے بے گھر افراد، اپنے بچوں کو بہتر غذا مہیا کرنے کی خاطر اپنا پیٹ کاٹنے والی مائیں اور کوڑے کوکٹ کے کنٹینروں سے خالی بوتلیں تلاش کرنے والے پینشنرز: یہ منظر موجودہ دور میں جرمنی جیسے امیر ملک کا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہونے والے جرمنی میں 13.8 ملین افراد غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں یا بڑھتی ہوئی غربت سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ یہ حقائق ایک فلاحی ادارے کی طرف سے پیش کردہ تازہ ترین رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ ادھر وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے پیش کردہ ‘غربت اور امارت 2022 ء‘ نامی رپورٹ سے بھی اس ملک میں امیر اور غریب طبقات کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کی نشاندہی ہوتی ہے۔
اس صورت حال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جرمنی میں لوگ بھوک یا سردی سے ٹھٹھر کر مرنے لگیں گے کیونکہ انہیں بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں گی یا پھر یہ کہ انہیں سماجی مدد نہیں مل سکے گی اور وہ صحت اور ضروری نگہداشت سے محروم ہو جائیں گے۔ سماجی علوم اور معاشرے کی اقتصادی صورت حال پر کی جانے والی تحقیق دراصل معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کے اوسط حالات زندگی کی پیمائش کے لیے یہ اندازہ لگاتی ہے کہ عام لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے کس حد تک محروم ہیں اور اس صورت حال کا تقابل نسبتاً غربت سے کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں تقریباﹰ سترہ فیصد باشندے غربت کا شکار
دولت کی غیر مساوی تقسیم
جرمنی دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست آخری مرتبہ 2021 ء میں اپ ڈیٹ کی گئی تھی۔ یہ درجہ بندی ملک کی اس خوشحالی پر مبنی ہے، جسے فی کس مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ماپا جا سکتا ہے۔ اس پیمائش کے لیے ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار کی مالیت کو اس کی آبادی سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس فی کس شرح میں نوزائیدہ بچوں سے لے کر بزرگ شہری تک سبھی مساوی حد تک شمار کیے جاتے ہیں۔ جرمنی میں یہ فی کس مجموعی اقتصادی پیداوار 50 ہزار 700 امریکی ڈالر سے کچھ زیادہ ہی بنتی ہے۔
لکسمبرگ دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ اس چھوٹی سی یورپی ریاست میں 2021ء میں فی کس بنیادوں پر مجموعی قومی پیداوار تقریباً ایک لاکھ 36 ہزار 700 امریکی ڈالر رہی تھی۔ دوسری جانب دنیا کے دس غریب ترین ممالک افریقہ میں ہیں۔ برونڈی کودنیا کا غریب ترین ملک سمجھا جاتا ہے، جہاں عام شہری کی فی کس مجموعی قومی پیداوار صرف 270 امریکی ڈالر بنتی ہے۔
فلاحی تنظیمیں بارہا جرمنی کے حوالے سے تنقید کرتی رہی ہیں کہ اس ملک میں ہر باشندے کو میسر بنیادی سماجی تحفظ غربت سے تحفظ فراہم نہیں کرتا اور جرمنی میں کسی عام شہری کی معمول کی اجتماعی زندگی میں ‘حقیقی شرکت‘ کے لیے کافی نہیں ہے۔
وفاقی جرمن حکومت 2023ء سے بنیادی سماجی امداد کی مالیت بڑھا کر 502 یورو کر دینا چاہتی ہے۔ سماجی امور کے ماہر اور غربت پر تحقیق کرنے والے محقق کرسٹوف بُٹرویگے کے مطابق یہ اضافہ بھی کافی نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق ماہانہ 650 یورو ‘با عزت زندگی‘ گزارنے کے لیے ناگزیر ہیں اور کم از کم اتنی رقم ایک فرد کوصحت مند غذا کی دستیابی کے لیے ہر ماہ درکار ہوتی ہے۔ 2021ء میں جرمنی ہی کی ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع کردہ ایک تجزیے سے پتا چلا تھا، ”اتنی کم رقم میں گزر بسر کرنے کے لیے غریب گھرانے اکثر یا تو کم خوراک کھاتے ہیں یا پھر غیر معیاری خوراک خریدتے ہیں۔‘‘ یہ فاؤنڈیشن، جو جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے بہت قریب ہے، اس صورت حال کو ‘خوراک کی غربت‘ کا نام دیتی ہے۔
جرمنی میں ایسے افراد کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو کُل وقتی ملازمت کے باوجود اپنی آمدنی میں گزر بسر نہیں کر پاتے۔ اس یورپی ملک میں کم از کم اجرت اب 12 یورو فی گھنٹہ کی جا چکی ہے۔ ایک اکیلا رہنے والا فرد، جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور جو ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرتا ہو، اس کی کُل تنخواہ 1480 یورو بنتی ہے۔ اس آمدنی میں گرچہ یہ فرد غربت کی نچلی ترین سطح سے کچھ ہی اوپر رہے گا تاہم مہنگائی اسے پھر بھی کھاتی جائے گی۔ ان مسائل سے طلبا بھی دوچار ہیں۔ خاص طور پر وہ جو حکومتی قرضوں یا ‘ریاستی فنڈ برائے تعلیم‘ پر انحصار کرتے ہیں، انہیں ماہانہ اوسطاً 934 یورو میں گزر بسر کرنا پڑتی ہے، جس میں ہاؤسنگ الاؤنس اور ہیلتھ انشورنس بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ معیار زندگی جرمنی میں غربت کی لکیر سے بھی کافی نیچے ہے۔
وفاقی جرمن حکومت توانائی کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے 200 بلین یورو استعمال کرنا چاہتی ہے تاہم ان رقوم سے بھی تمام اضافی اخراجات پورے نہیں ہوں گے اور ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح بلند ہی رہے گی۔
جرمنی میں زندگی مہنگی ہی رہے گی اور یہ بنیادی طور پر وہ لوگ محسوس کریں گے جن کے پاس کوئی مالیاتی تحفظ یا کوئی محفوظ سرمایہ نہیں ہے۔