انڈیا کی مغربی ریاست گجرات میں سال 2002 کے مذہبی فسادات کو روکنے کی ذمہ داری سنبھالنے والے فوج کے جنرل نے کہا ہے کہ انھیں اگر بروقت گاڑیاں اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہوتیں تو سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے لیکن عام طور پر مانا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔
مرنے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
ریاستی حکومت نے فسادات پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کی تھی اور آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے سپرد کی تھی جن کی ’سٹرائک کور ڈیویژن‘ اس وقت راجستھان میں تعینات تھی۔
جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ حکم ملتے ہی فوج کے دستے فضائیہ کے طیاروں میں سوار ہو کر احمد آباد پہنچ گئے تھے لیکن وہ لوگ ایک دن سے زیادہ ہوائی اڈے پر ہی بیٹھے رہے کیونکہ ریاستی حکومت نے ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔
جنرل شاہ نے یہ انکشاف اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں کیا ہے۔
گجرات میں 28 فروری سال 2002 کو مذہبی فسادات بھڑکے تھےاور اس وقت نریندر مودی ریاست کے وزیراعلیٰ تھے۔
نریندر مودی کو تب سے ہی ان الزامات کا سامنا رہا ہے کہ انھوں نے فسادات کو روکنے کے لیے یا تو دانستہ طور پر خاطر خواہ کارروائی نہیں کی تھی یا پھر کارروائی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ فسادات سے پہلے ایک ٹرین میں آگ لگائی گئی تھی جس میں 58 ہندو کارسیوک ہلاک ہو گئے تھے۔
ان لوگوں کی لاشیں جلوسوں کی شکل میں ان کے گھروں کو لے جائی گئی تھیں اور جنرل شاہ کے مطابق اس سے اکثریتی فرقے کے جذبات بھڑکے تھے۔
جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے پر ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ کیا جانا ’انتظامی غلطی‘ تھی اور اگر فوج کو احمد آباد پہنچتے ہی گاڑیاں مل گئی ہوتیں تو فسادات کو اور جلدی روکا جا سکتا تھا۔
ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چونکہ تین دن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسانی سے تین سو سے زیادہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
لیکن جنرل شاہ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ ان کے خیال میں ٹرانسپورٹ کا انتظام دانستہ طور پر نہیں کیا گیا تھا یا تاخیر فسادات کی وجہ سے ہوئی تھی۔
’جب ہم احمد آباد شہر کے اوپر پرواز کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ پورے شہر میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب ہم پہنچیں گےتو ہمیں گاڑیاں، مجسٹریٹ، پولیس گائیڈ اور سیل فون ملیں گے۔۔۔لیکن وہاں ہمارے ایک برگیڈیئر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔‘
جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ وہ سیدھے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ گئے جہاں اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈیز بھی موجود تھے۔
انھوں نے دونوں کو بتایا کہ انھیں کن چیزوں کی ضرورت ہو گی اور واپس ہوائی اڈے آ گئے لیکن پوری رات اور اگلا پورا دن انتظار میں گزر گیا اور آخرکار دو مارچ کی صبح تقریباً دس بجے انھیں گاڑیاں اور گائیڈ فراہم کیے گئے۔
جنرل شاہ کا دعویٰ ہے کہ مقامی پولیس حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی اور حملہ آوروں نے جگہ جگہ اقلیتوں کے علاقوں کو گھیر رکھا تھا۔’اور پولیس یا تو حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی یا خاموش کھڑی تھی۔‘
گجرات کے فسادات کی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے کی تھی لیکن 16 برس گزر جانے کے بعد بھی زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں مل پایا۔
شہری اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا الزام ہےکہ فسادات کے بعد مسلمانوں کے مقدمے درج ہی نہیں گئے تھے اور بعد میں جب درج بھی کیے گئے تو ان کی موثر انداز میں تفتیش نہیں کی گئی۔