فرزانہ خورشید
پریشانی اور افسردگی سے بچاؤ اور خوش وخرم زندگی گزارنے کی موثر تدبیر جسمانی وذہنی دونوں اعتبار سے خود کو مصروف رکھنا ہے، کیوںکہ ایک تحقیق کے مطابق مصروفیت اعصاب کو سکون بخشتی ہے۔
دورحاضر کا تقریباً ہر شخص ان گنت مسائل و مصائب میں الجھا ہوا ہے، لیکن یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ ہماری فراغت ہے۔ یوں تو ہر شخص بے حد مصروف ہے اور بے شک جسمانی مشقتیں بظاہر اسے دن بھر اپنے گھیرے میں لے رکھتی ہیں، لیکن کیا یہ ساری مصروفیات اس کے ذہن کو بھی مشغول رکھتی ہیں؟
یہ سچ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے اوقات معمولات کی تکمیل میں مصروف گزارتے ہیں کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں رہتا، لیکن کاموں کی انجام دہی کے درمیان ہمارا ذہن پریشانی تردّد، افکار سوچ و بچار میں مسلسل لگا ہوتا ہے، یعنی منفی خیالات کی لگاتار بوچھار جسمانی مشقت سے زیادہ ہمارے اعصاب کو تھکا کر ہمیں بیمار کردیتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دورانِ کام ہماری جسمانی حرکت تو ہوتی ہے لیکن ہم اپنے اعصاب کو تخریبی سوچوں کے لیے آزاد رکھ چھوڑتے ہیں، اور یہ فطری بات ہے کہ جہاں خلا موجود ہو اور دیکھ بھال کا مناسب انتظام بھی نہ کیاجائے وہاں گردوغبار کا ڈھیڑ خود جمع ہوجایا کرتا ہے۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے چھوٹے بڑے سب کو اس حد تک جکڑ رکھا ہے کہ انھیں فراغت کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں، لیکن اس سے خوش و خرم زندگی ہرگز نہیں گزر سکتی، بلکہ اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اعصابی بیماریاں تیزی سے جنم لے رہی ہیں تیزتر شعائیں انسان کے اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہیں اور تناؤ میں اضافہ کررہی ہیں۔
لہذا انسان کو ایسے مشاغل اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اس کی جسمانی و ذہنی صحت کی بقا کر سکے اور اسے مشکلات میں بجائے پریشان ہونے کے پرسکون رکھ سکے۔ جسم کے ساتھ ذہن کی بھی مناسب خوراک کا خیال رکھے، اور ایسی تمام چیزوں سے حتی الامکان اپنے ذہن کو بچائے جس کی وجہ سے پریشانی، تنگ خیالات، نظریات و افکار جگہ خالی دیکھ کر اپنا ڈیرہ جمانے کی کوشش شروع کردیں اور آپ کی امیدیں چھین کر مایوس کرڈالیں۔
٭ یہ دنیا جنت نہیں : تین عالم کی تخلیق کے ساتھ انسان کی تخلیق ہوئی، ایک عالم جنت ہے جہاں کسی قسم کا کوئی غم و دکھ کا شائبہ تک نہیں صرف امن، خوشی، اطمینان سکون اور راحت ہی راحت ہے، دوسرا عالم جہنم ہے جس کی ہول ناکیوں، دہشت پر ذرہ برابر کمی نہیں، راحت سکون، خوشی کا کوئی جھونکا بھی نہیں، اور ایک عالمِ دنیا ہے جہاں دکھ، سکھ غم، خوشی، تکلیف، راحت کی آمیزش ہے، یہاں کامل چین و سکون اگر ڈھونڈو گے تو کبھی نہ مل سکے گا۔
یہ امتحان کی گاہ ہے جیسے صبح کے بعد کالی رات آتی ہے، پھر اجالے کی کرن تاریکیوں کو ختم کرنے کی نوید لاتی ہے، جیسے خزاں کے بعد بہار آتی ہے، اسی طرح شب و روزکٹتے رہیں گے، آسانیوں کے ساتھ کبھی مشکلات بھی راہ کی دیوار بنیں گی، کبھی طوفان سے بھی ٹکرانا پڑے گا، لہذا مسائل سے آزاد زندگی تو کبھی نہ ہوسکے گی، چناںچہ ان مسائل میں خود کو نہ الجھائیں، انہیں اعصاب پر طاری نہ ہونے دیں، ہمت، صبر ثابت قدمی اور عقلمندی سے ان کا حل دریافت کریں۔
٭ پُرسکون کیسے رہا جائے: سائنس کے مطابق کئی جسمانی بیماریاں ذہنی بے سکونی، تناؤ، ڈپریشن کی مرہون منت ہوتی ہیں، اور ہم بجائے بیماری پیدا کرنے والی مشین کو ٹھیک کرنے کے بیماری حل کرنے کی کوششوں میں مسلسل لگے رہتے ہیں۔
دنیا مانتی ہے کہ ڈپریشن، پریشانیوں کی بدولت ہر روز لاتعداد انسان خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوتے موت کی نیند سوجاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اب تک اس سے بچنے کا کوئی مناسب سدّباب کسی کے کنٹرول میں نہیں، یا اس پر قابو پانے والوں کی تعداد بہت کم ہے، تو آخر کن طریقوں پر عمل کیا جائے جس کی وجہ سے ہمارا ذہن پُرسکون رہے؟
اس مقصد کے پیش نظر ذیل میں مفید طریقے تجویز کیے گئے ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر ہم اور آپ اپنی مشکلات پر بہتر طریقے سے قابو پاسکتے ہیں، اپنی جسمانی واعصابی صحت کو بحال رکھ سکتے ہیں۔
٭ذہن کو متحرک رکھیں: ایسی مصروفیات تلاش کریں جو آپ کی ذہنی صحت کے لیے بہترین ثابت ہو، کسی نہ کسی تعمیری کام اور اس کی منصوبہ بندی میں خود کو مشغول رکھیں، جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کی بھی فکر کریں، مائنڈ تنظیم کے سربراہ اسٹیفن بکلی کہتے ہیں،”ہماری جسمانی صحت اور دماغی صحت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔” ذہنی تناؤ اور ڈپریشن جسمانی صحت کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔
افلاطون کہتا ہے “طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف توجہ دیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ سلوک کیا جا سکتا ہے۔”
حقیقت میں ذہنی صحت کی جانب لوگوں کا رجحان کم ہی نظر آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ورزش مراقبہ مطالعہ اور فطرت میں وقت گزارنا جیسے مشاغل ذہنی سطح متوازن رکھتے ہیں انھیں اپنی زندگی میں لازماً شامل کریں۔
٭کام کو بطور دوا استعمال کریں: ریسرچ کہتی ہے انسان پریشانی کی حالت میں خود کو مصروف رکھ کر کافی حد تک ذہنی کشمکش واعصابی دباؤ کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ یعنی خود کو اتنا مصروف کرلیا جائے کہ پریشان ہونے کے لیے وقت ہی نہ بچ پائے۔
دماغی معالجین اعصابی مریضوں کے لیے کام کو بطور دوا استعمال کرکے ان کا علاج کرتے، اور اس طرح انھیں ذہنی سکون مہیا کرتے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے طبیعات کے سابق پروفیسر آنجہانی ڈاکٹر سی کیوٹ اپنی کتاب “انسان کیسے رہتا ہے” میں لکھتے ہیں کہ ” ڈاکٹر کی حیثیت سے مجھے بہت سے لوگوں کو کام کے ذریعے صحت یاب ہوتے دیکھنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے، یہ لوگ روح فرسا بیماریوں میں مبتلا تھے جو شک، بے چینی، ہچکچاہٹ، تذبذب، خوف کے جذبات سے مغلوب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔
ہمیں کام کرنے سے جو حوصلہ ہوتا ہے وہ خود اعتمادی کی مانند ہوتا ہے”۔ کام اس لیے مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ نفسیات کے اصول کے مطابق کسی بھی انسانی دماغ کے لیے خواہ وہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں کے متعلق سوچ بچار کرنا ناممکن ہے۔ تب ہی مصروفیات ان کے غم بھلا دیتی ہے۔
٭” آج” کو فوقیت دیں: کل کی فکر میں اپنے آج کو خراب نہ ہونے دیں۔ اسٹفین لی کاک لکھتے ہیں ہماری زندگی کا چھوٹا سا جلوس کتنا عجیب و غریب ہے! بچہ کہتا ہے جب میں ذرا بڑا ہو جاؤں گا تو کیا ہو گا، بڑا ہو کر لڑکا کہتا ہے جب میں جوان ہوجاؤں گا اور جوان ہو کر وہ کہتا ہے۔
جب میں شادی کروں گا، لیکن شادی کے بعد کیا ہوتا ہے! اس وقت خیالات تبدیل ہوجاتے ہیں، جب میں بوڑھا ہوجاؤں گا اور پھر جب بڑھاپا قدم بڑھاتا ہے تو، وہ گزرے ہوئے مناظر کو دیکھتا ہے اور اسے ایک سرد ہوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہ سب کچھ کھو چکا ہے اور ہر چیز اس کے اختیار سے نکل چکی ہے۔ بہت دیر کے بعد ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی ہر دن اور ہر لمحے میں رہنے میں ہے۔
مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں اور ماضی کی غلطیوں کو اپنی زندگی کا روگ ہرگز نہ بنائیں، کل کی غیرضروری فکریں نہ آپ کو ایک بہتر دن دے سکتی ہیں اور نہ ماضی کا پچھتاوا آپ کا بوجھ ہلکا کر سکتا ہے، ماضی کا حق صرف یہ ہے کہ غلطیوں کا تجزیہ کیا جائے، سبق لیں اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے بُھلا دیں۔
انسان اگر اپنے ماضی پر پچھتانا اور مستقبل کی فکر و اندیشوں میں خود کو گُھلانا چھوڑ کر اپنے آج کو سنوارنا شروع کردے تو وہ خوش آئند زندگی جی سکتا ہے، ورنہ پریشانی مصائب و مشکلات میں گھٹ گھٹ کر ہی جیے جائے گا۔
خلاصہ مختصر کہ بس اپنے آج کو بہترین کرنے کی فکر و کوششوں میں مشغول رہیں۔
٭ زندگی کو معنی دیں: جینے کا مقصد تلاش کریں، اپنی زندگی کے ایام کسی اہم مقصد کے ساتھ وابستہ کرلیں، کیوںکہ مقاصد کے بغیر زندگی زمین پر بوجھ ہے۔ انسان مقصد کے تحت مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا، بغیر مقصد انسان کی زندگی دنیا کے مسائل، پریشانی و انتشار میں الجھ کر یوں ہی تمام ہوجاتی ہے، جب کہ مقصد انسان کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے لوگوں کے دلوں میں محبتوں اور عزت کی صورت قائم دائم رکھتا ہے۔
اور اس کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششیں، محنت، لگن، استقامت انسان کو ترغیب دیتی ہے اسے ذہنی الجھنوں و کشمکش سے نکال کراس کی فکر ایک نکتے پر مرکوز کر دیتی ہے، مشکلات سے مقابلہ کرنے کی ہمت و حوصلہ فراہم کرتی ہے۔
٭ سوچ کا مثبت انداز اپنائیں: “انسان کے خیالات اس کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں”، اس کی سوچ کے مطابق اس کی قسمت و حالات کا تعین ہوتا ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے واقعات بھی اکثر و بیشتر سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی جسمانی و ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے والی چیز منفی خیال ہوتا ہے منفی سوچ بذات خود ایک بڑی بیماری ہے، جو اپنے ساتھ کئی بیماریاں لے کر آتی ہے۔
جب کہ مثبت سوچ کام یابی کی ضامن ہے۔ یہ مصائب و پریشانی کی حالت میں انسان کو اعصابی شکست سے بچالیتی ہے۔ سوچنے کا انداز انسان کے احساسات، جذبات اور رویے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے مطابق اس کے عمل و معاملات ہوتے ہیں۔
امریکی فلاسفر ایمرسن کہتا ہے،”ایک انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے۔” نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں،”آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔” خوش نصیبی ہے کہ انسان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریات و افکار و عادات کو کنٹرول کرسکتا ہے، اپنی سوچ کو مثبت رنگ دے سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی سوچ پر گرفت مضبوط رکھیں، جوں ہی یہ منفی ہونے لگے، فوری طور پر اس کا رخ مثبت کی جانب موڑ دیں ۔ اس کی مسلسل مشق آپ کو مثبت رہنا اور مثبت جینا سیکھادے گی۔
٭ اپنے شوق دریافت کریں: معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کہتے ہیں” اگر انسان کا شوق اور پروفیشن ایک ہی ہو تو وہ زندگی میں غیرمعمولی ترقی کرتا ہے۔” کیوںکہ شوق پر انسان خود بخود زیادہ محنت کرتا اور اپنی تمام تر قوت و توانائی کا بھرپور استعمال کرتا ہے، اور اس کا کام بجائے تھکاوٹ کے اسے اور انرجی فراہم کرتا اور مزید کام کی ترغیب کے لیے ابھارتا ہے، اور یہ طے شدہ بات ہے کہ جس چیز پر بھی وقت، توجہ اور محنت بڑھائی جائے تو اس کے نتائج غیرمعمولی ہی ہوتے ہیں۔
دل چسپی کے کام انسان کو خوش باش مطمئن رکھتا ہے، شوق انسان کو زندگی کا مقصد دیتا اور جینے کی امنگ بڑھاتا ہے اور صورت حال جیسی بھی ہو، شوق اگر اڑان پکڑتا ہے تو ہر طوفان سے ٹکرانے کی طاقت فراہم کردیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ اپنے شوق سے آشنا نہیں ہوتے، نہ ہی اس کی دریافت کا شوق ان کے دل میں پروان چڑھتا ہے، بس لکیر کے فقیر کی طرح جس کھونٹے سے بندے عمر بھر بندھے رہتے ہیں ناخوش رہتے، اپنی زندگی کے قیمتی لمحوں کو گھٹن، اذیت، کرب میں کٹتے تکتے رہ جاتے ہیں۔
٭ ذوقِ مطالعہ اپنائیں: انسان کی ذہنی فکری و اخلاقی سطح کو نکھارنے کا اہم ذریعہ مطالعہ ہے، ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ “مطالعے کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68 فی صد کم کرتی اور عمر طویل کرتی ہے۔” ناخوش گوار حالات میں دماغ کو پرسکون رکھنے میں مطالعہ مفید ثابت ہوتا ہے، مطالعہ انسان کے خیالات، نظریات، عادات تبدیل کرکے زندگی بدل دیتا ہے، منفی ماحول میں بھی سوچ کو مثبت رکھتا اور ذہن کو تنگ خیالات سے محفوظ رکھتا ہے۔
مطالعے کی عادت انسان کو قلبی و ذہنی سکون مہیا کرتی اور اسے پرسکون نیند بخشتی ہے، کتب کے ذریعے انسان کو نئے نظریات اور سوچنے کے مثبت انداز ملتے ہیں، جو اس کی عادات سنوار کر اسے بہترین اقدار سکھاتے ہیں۔ نئی چیزیں سیکھنا اور اپنی زندگی میں عمل کی صورت شامل کرنا ترقی کی جانب قدم ہے۔ پڑھنے کا شوق انسان کو نہ صرف مفید معلومات سے نوازتا ہے، بلکہ ساتھ ہی اسے دل چسپ مقامات کی سیر کراتا، خوشی دیتا، اس کے موڈ کو خوش گوار رکھتا ہے۔
ریسرچ کہتی ہے سیکھنے کی عادت انسان کو خوش و خرم رکھتی ہے، نیز ذوق مطالعہ کے جسمانی وذہنی صحت پر حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مختصراً مطالعہ کی عادت صحت کو توانا کرتی اور ذہنی قوتوں کو فروغ دیتی، قلب کو روشن اور یادداشت میں اضافہ کرتی ہے اور منفی جذبات واحساسات سے دور رکھتی اور رویوں کو بہتر کرتی ہے۔ لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ شوقِ کتب اور ذوق مطالعہ اپنائیں، اور اس کے ان گنت فوائد سے مستفید ہوں اور اپنی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی بڑھائیں۔