سرسا : مختلف مطالبات کے سلسلے میں آشا ورکرس یونین کی جدوجہد جاری ہے ۔ منگل کو احتجاج کر رہی آشا ورکرز سرسا کی لوک سبھا ایم پی سنیتا دوگل کی رہائش گاہ پر پہنچ گئیں۔
ممبر پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں نمائندے میمورنڈم لینے کے لئے آئے لیکن عملے نے انہیں میمورنڈم نہیں دیا۔ اس کے بعد نمائندے نے ملازمین کو یقین دلایا کہ رکن پارلیمنٹ خود بدھ کو احتجاج گاہ میں آکر میمورنڈم لیں گی، جس کے بعد ملازمین احتجاجی مقام پر واپس آ گئیں۔
احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے ضلع صدر درشنا اور کلاوتی مکھوسرانی نے کہا کہ آج احتجاج کا 34 واں دن ہے ۔ آشا ورکرس کے اعزازیہ میں 2018 کے بعدسے اضافہ نہیں کیا گیا ،بلکہ کام میں پانچ گنا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس لیے حکومت کی اس پالیسی کو لے کر آشاو[؟][؟]ں میں کافی غصہ ہے ۔
کسان بھی آشا ورکرس کی ہڑتال کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔ یونین لیڈر شملہ، پنکی نے حکومت پر الزام لگایا کہ آشا ورکرس کے مطالبات ماننے کے بجائے حکومت غنڈہ گردی پر تلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آشا ورکروں میں غصہ ہے ۔ حکومت ملازمین کو مسلسل گمراہ کر رہی ہے ۔ ہر باربھروسہ دے کر ملازمین کواٹھا دیا جاتا ہے لیکن اس بار ملازمین اپنے حقوق لینے کے بعد ہی اٹھیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے قول و فعل میں بڑا فرق ہے ۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہڑتال سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے ، جبکہ جب سے آشا ورکرس نے ہڑتال کی ہے ۔ تب سے آشا سے متعلق تمام کام رک گئے ہیں۔ ریاستی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہڑتال 27 ستمبر تک جاری رہے گی۔
اس کے بعد بھی اگر حکومت نے ملازمین کے مطالبات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہڑتال غیر معینہ مدت میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ اس دوران عوامی مفاد میں جو بھی نقصان ہوگا، اس کے ذمہ دار حکومت اور اہلکار ہوں گے ۔ اسٹیج کی نظامت سلوچنا اور اوشا نے کی۔
اس موقع پر پروین، پنکی، میناکشی، آشا رانی، سی آئی ٹی یو کے صدر کرپا شنکر ترپاٹھی، وجے اور ضلع بھر کی آشا ورکرس موجود تھیں۔