اقوام متحدہ : بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک ہوگیا اقوام متحدہ نے سنسنی خیز رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی مفرور اور معزول وزیراعظم حسینہ واجد کے دور میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کر دیا ہے جس میں گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار اس وقت کی وزیراعظم حسینہ واجد کو قرار دیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ سال جولائی اگست میں بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں گزشتہ سال جولائی میں ہونے والے قتل عام میں حسینہ واجد کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک کی جانب سے 12 فروری کو جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں حکومتی کریک ڈاؤن میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر کو بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پُر تشدد کریک ڈاؤن باقاعدہ پالیسی کا حصہ تھے۔ مظاہرین اور ان کے حامیوں پر کیے گئے پُر تشدد حملوں کے شواہد ملے ہیں اور اقوام متحدہ نے ان اقدامات کو انسانیت کیخلاف جرائم میں شامل کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی سے 15 اگست 2024 کےدوران حکومت کیخلاف مظاہروں اور بغاوت کے دوران ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان ہلاکتوں میں 12 سے 13 فیصد بچے تھے۔
یو این انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق حکومت، سیکیورٹی فورسز اور عوامی لیگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے۔ اُس کریک ڈاؤن کا مقصد حسینہ واجد کی جانب سے اقتدار میں رہنا تھا۔
فولکر ترک نے مزید کہا کہ ہم نے جو شواہد جمع کیے ہیں، وہ ریاستی تشدد اور گھات لگا کر قتل کی کارروائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں بلکہ بین الاقوامی جرائم بھی بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ طلبہ کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے بعد بنگلہ دیش کی مطلق العنان حکمران حسینہ واجد اپنا 16 سالہ اقتدار اور ملک چھوڑ کر اپنے دوست ملک ہندوستان فرار ہوگئی تھیں۔