فیصل فاروق
معروف عالم دین اور رکن پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی کی دورئہ قلب پڑنے سے اچانک انتقال کی خبر سن کر بیحد افسوس ہوا۔ حالیہ دِنوں میں ملک کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں، اُس پر وہ کافی فکرمند تھے۔ اُن کی رحلت قوم و ملت کا نہ قابلِ تلافی نقصان ہے جس کی بھرپائی مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔
اُن کی طبیعت میں ملنساری اور انکساری کا جوہر بہت نمایاں تھا۔ مشکل ترین حالات میں بھی کبھی پریشان نہ ہونا مولانا کی امتیازی پہچان تھی۔ آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ ملت کی رہبری و رہنمائی فرمائی۔
مولانا اسرارالحق قاسمی نے ملت کی فلاح و بہبود کے تعلق سے سیاسی سطح پر بھی اہم خدمات انجام دیں۔ اُن کی کوششوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ برادرانِ وطن بھی فیضیاب ہوئے۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کے مسائل کو ایوانوں میں پیش کر کے حل کرانے کی بھرپور جدوجہد کی۔ اُن کی پوری زندگی خدمتِ خلق میں گزری۔ مولانا ایک عالم با عمل تھے۔ اردو کے کئی رسائل و اخبارات میں مولانا کا مضمون ایک عرصہ سے شائع ہوتا رہا ہے۔ معمول کے مطابق گزشتہ روز صبح اخبار دیکھا، مولانا کا مضمون سامنے تھا لیکن افسوس راہ عِلم کا مسافر اپنی آخری منزل پر پہنچ چکا تھا۔
مولانا اپنی صاف ستھری سیاست، ایمانداری اور سادگی کیلئے جانے جاتے تھے اور سماجی کاموں کی وجہ سے اپنے حلقہ میں انتہائی مقبول تھے۔ مودی لہر کے باوجود۴ ۲۰۱ء کے عام انتخاب میں اُنہوں نے بی جے پی کے امیدوار دلیپ جیسوال کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔ سماجی کارکن، ایک بیدار مغز تعلیمی رہنما، ایماندار سیاسی لیڈر، آل انڈیا ملی کونسل کے بانی رکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دارالعلوم دیوبند کے مجلس شوریٰ کے فعال رکن اور کشن گنج سے کانگریس کے مقبولِ عام رکن پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی کی وفات یقیناً موت العالِم موت العالَم کی مصداق ہے۔
راقم کے ایک دوست جو مولانا مرحوم کو کافی قریب سے جانتے تھے، بتاتے ہیں کہ نہ صرف معاصر علمائے کرام آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ سیاسی مخالفین بھی آپ کی قدر کرتے تھے۔ شب و روز سیاسی وسماجی مصروفیات میں سرگرم رہنے کے باوجود آپ کی عِلمی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ چنانچہ آپ فرائض و نوافل کی پابندی کے ساتھ تا عمر تہجد کے بھی پابند رہے۔ بلکہ آخر شب میں بیدار ہوتے اور تہجد پڑھنے کے بعد کچھ دیر تلاوتِ قرآن فرماتے پھر فجر کی نمازاول وقت میں پڑھ کر آرام فرماتے تھے۔ یہ بھی حُسنِ اتفاق ہی تھا کہ اُن کی وفات بھی اُسی وقت ہوئی جب وہ تہجد کیلئے بیدار ہوئے تھے اور وضو کے بعد نماز کی تیاری کر رہے تھے۔
لوک سبھا میں ہمیشہ وہ اپنی بات کو اچھی طرح سے پیش کرتے اور اقلیتوں کے مفادات سے جڑے معاملوں پر ہمہ جہت گفتگو کرتے تھے۔ وہ عظیم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ گزشتہ ماہ اُنہوں نے ایک مضمون میں اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھی اگر بی جے پی برسرِ اقتدار آگئی تو اِس ملک، جمہوریت اور آئین کا کیا ہوگا اِس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ ملک میں بدامنی، خانہ جنگی پیدا ہو سکتی ہے اور ملک تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ صحیح وقت ہے کہ ملک کی تمام سیکولر جماعتیں ہوشیار ہوجائیں اور جس عظیم اتحاد کے بارے میں ابھی تک صرف باتیں ہوتی رہی ہیں، بیان بازی سے آگے بڑھ کر اُسے عملی جامہ پہنایا جانا چاہئے۔
اُنہوں نے ملک کی کئی ریاستوں میں مدارس و مکاتب دینیہ قائم کرتے ہوئے عِلم کا چراغ روشن کیا جہاں سیکڑوں طلبہ کی مفت تعلیم و تربیت کا انتظام ہے۔ سیمانچل کے پسماندہ علاقے میں تعلیمی و سماجی ترقی کیلئے آل انڈیا ملی و تعلیمی فاؤنڈیشن قائم کیا۔ اِس کے علاوہ مولانا مرحوم کا ایک بڑا عِلمی کارنامہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی شاخ کا قیام بھی ہے۔ جس کیلئے اُنہوں نے سماج کے مختلف طبقات کو ساتھ لے کر بڑے پیمانے پر مطالباتی مہم چلائی اور بالآخر اُنہیں کامیابی بھی ملی۔ وہ کانگریس پارٹی کیلئے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔
مولانا اسرارالحق قاسمی کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت معروف اسلامک اسکالر، ایک بہترین مصنف، مقبول مقرر، مدبر، مفکر، دانشور، متعدد دینی و تعلیمی اداروں کے سرپرست، دردمند قومی و ملی رہنما، ایماندار سیاستداں اور سب سے بڑھ کر انسانی اقدار کے زبردست علمبردار تھے۔ غرض انسانی وصف کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو مولانا کی دسترس سے باہر تھا۔ اللہ رب العزت مرحوم کو جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام اور جملہ متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ ملت کو اُن کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔
(فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صحافی ہیں)