اپنی تقریباً ایک سو تیس سال کی تاریخ میں کانگریس کے کسی صدر نے ان نا مساعد حالات میں پارٹی کی قیادت نہیں سنبھالی ہے جن حالات میں راہل گاندھی نے یہ زمہ داری قبول کی ہے –
حالانکہ انکی والدہ سونیا گاندھی نے بھی کچھ کم مشکل حالات میں دس سال قبل کانگرسس کی قیادت نہیں سنبھالی تھی لیکن اس وقت بہر حال کانگریس کی کی ریاستوں میں حکومتیں تھیں اسکے پاس کارکنوں کی فوج بھی تھی اور اسکا خزانہ بھی خالی نہیں تھا آج کانگریس ایک کے بعد ایک ریاستی حکومتیں کھوتی جا رہی ہے اس کے خود غرض اور زمانہ ساز کارکن ہی نہیں سینئر لیڈران بھی اپنی اپنی مطلب کی پارٹیوں میں جا چکے ہیں جو بچے ہیں وہ تپے تپائے کانگریسی ہیں اور یہی کانگریس کی طاقت ہیں ۔
جہاں تک کانگرس کے خزانہ کی بات ہے تو وہ موجودہ نظام کے شروع ہونے سے پہلے ہی خالی ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ کارپوریٹ گھرانوں نے ہوا کا رخ بھانپ لیا تھا حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت کانگریس کو قوت لا یموت کیلئے بھی جد و جہد کرنی پڑ رہی ہے۔
ایک اور بات جو راہل گاندھی کو دنیا کے دیگر لیڈروں اور کانگریس کے دیگر صدور سے جدا کرتی آہی وہ ہے مد مقابل خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ ان پر کے گئے حملے، اگر اس الزام کو نذر انداز بھی کر دیا جائےکہ بے جے پی نے راہل کی کردار کشی اور انھیں پپو ثابت کرنے کے لئے پانچ سو کروڑ روپیہ خرچ کیا ہےتو بھی اس حقیقت سے کوئی انصاف پسند انکار نہیں کر سکتا کہ راہل کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کا مذاق اڑانے اسے بچکانہ ثابت کرنے اور اور انھیں نا بالغ ثابت کرنے کے لئے بے جے پی کے بڑے بڑے لیڈران مرکزی وزرا اور پارٹی کے ترجمان ہی نہیں خودبہت سے صحافی حضرات خصو صاً ٹیلی ویزن کے اینکر حضرات پوری طاقت صرف کر دیتے ہیں۔
آج بھی یہ لوگ راہل کےنام کے ساتھ راہل بابا یا پپو جیسے الفاظ ضرور لگا دیتے ہیں ۔گجرات کی انتخابی مہم میں ایک اکیلے کے راہل کے خلاف وزیراعظم درجنوں مرکزی وزرا پارٹی کے درجنوں ترجمان اور میڈیا کا ایک حلقہ پوری طاقت سے لگا تھا یہ تو ابھی کل کی بات ہے –صدر کانگرس راہل گاندھی کو ایک ایسے دشمن سے مقابلہ کرنا ہے جو جنگ یا کھیل کے کسی اصول کو نہیں مانتا اسکا واحد مقصد صرف کامیابی ہے یہ کامیابی کیسے ملے گی اور اس کے لئے اسے کیا کیا تدبیریں کرنی پڑیں گی اس کی اسے کوئی فکر نہیں ہےوہ جنگ اور محبّت کے بجاے جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے کے فارمولہ پر عمل کرتا ہے۔
دس پندرہ سال قبل تک ہندوستانی سیاست میں یہ انحطاط نہیں تھا ۔بے جے پی کے ممتاز ترین لیڈر اور سابق وزیراعظم کا یہ مقولہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’کسی کی برائی کر کے چناؤ جیتنے سے بہتر ہار جانا ہے‘‘اب انہیں کی پارٹی کے ارباب حل و عقد نے اسے سیاسی مذاکرات کی کتاب سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔
بیرونی کے ساتھ ساتھ راہل کو اندرونی مخالفین سے بھی پنجہ لڑانا پڑا تھا اور آیندہ بھی لڑانا پڑیگا بہت سے کانگریسی لیڈروں کو راہل کے عروج سے دقت ہو رہی ہے یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے قدم قدم پر انکے والد راجیو گاندھی کو غلط مشورے دے کر ان سے تاریخی غلطیاں کروائیں اور اب راہل کے ساتھ بھی وہ یہی کھیل کھیل رہی ہیں پارٹی کو اس کی آزمودہ پالیسی میں منحرف کر کے اسے نرم ہندوتو کی راہ پر لے جانے کے مشورہ دینے والے کسی بھی قیمت پر نہرو گاندھی خاندان کانگرس پارٹی اور نہرو کے نظریات کے تیں وفادار نہی ہو سکتے،
کانگرس نہرو کے نظریات سے وابستہ رہ کر ہی اپنی عظمت رفتہ بحال کر سکتی ہےسیکولر ازم سوشلزم اور ملک میں سائنسی مزاج کی تشکیل کے عہدو پیمان کے بغیر کانگرس بے روح کی سیاسی پارٹی ہوگی راہل کو اپنی پوری توجہ ان پالیسیوں اور پروگراموں کے نفاز پر دینی ہوگی اور اسکے لئے انھیں ان اصولوں کے لئے وفادار کارکن اور لیڈر تیار کرنے ہونگے- کانگرس میں نوجوانوں کو لانے کے لئے انھیں خصوصی مہم شرو ع کرنی ہوگی سچن پائلٹ اور جیوتیرادتیہ سندھیا جیسے ہزاروں کارکنوں کی پارٹی کو سخت ضرورت ہے سینئر اور بزرگ لیڈروں کو نوجوانوں کے لئے خود راستہ دینا ہوگا –
راہل کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اتر پردیش سمیت سبھی اہم اور بڑی ریاستوں میں بوتھ کی سطح تک جوشیلے حوصلہ مند اور وفادار کارکنوں کی ٹیم تیّار کرنا ہے انکا مقابلہ بے جے پی کے تین ایم یعنی منی (دولت ) میڈیا اور مین پاور یعنی سنگھ کے حوصلہ مند وفادار کارکنوں سے ہے جو کامیابی ناکامی سے بے پروا اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں جو ایک الیکشن کے فورن بعد دوسرے الیکشن کی مہم میں لگ جاتے .ہیں اور جو گرام سبھا کے الیکشن کو بھی اتنی اہمیت دیتے ہیں
جو لوک سبھا کے الیکشن کو دیتے ہیں یہ لوگ الیکٹورل لسٹ کی تیّاری سے لے کر پولنگ والے دن کمزور بزرگ اور خاتون ووٹروں کو پولنگ بوتھ پر لے جانے تک کا کام بڑی تندہی اور لگن سے کرتے ہیں اس کے برخلاف دیگر پارٹیوں خاص کر کانگریس کے کارکنوں مے ایک مردنی لاپرواہی اور نیتا کے ارد گرد چکّر لگاتے رہنے کا ہی رجحان پایا جاتا ہے راہل کو کانگرس کو ایک کاڈر بیسڈ پارٹی بنانا ہوگا یہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن این ایس یوآئی ‘یوتھ کانگرس اور کانگرس سیوا دل جیسی پارٹی کی ذیلی تنظیموں کو متحرک کر کے یہ کیا جا سکتا ہے-
کانگرس ہمیشہ سے غریبوں کی پارٹی رہی ہے یہ تو منموہن سنگھ کی شروع کی گی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اس پر متوسط طبقہ کے مفاد کا خیال رکھنے کا الزام بھی لگا لیکن جو حقیقت کے بے حد قریب بھی ہے ٢٠٠٩ء کے پارلیمانی الیکشن میں اسے اس طبقہ کی حمایت بھی ملی جسے واپس پانے کے لئے ہی بے جے پی نے انّا ہزارے کی تحریک شروع کرائی تھی اور اپنے مقصد میں کامیاب رہی اب پھر کانگرس کو اپنے اسی کور ووٹ بنک کی جانب واپس جانا ہوگا منموہن سنگھ کے دور میں غریبوں کے مفاد میں جو کام کے گئے تھے .
مثلاً روزگار گارنٹی اسکیم ‘حق غذا قانون ‘کسانوں کی بڑے پیمانے پر قرض معافی اور ان کو اب تک کا سب سے زیادہ سرکاری خریداری ریٹ دینا ‘حق اطلاعات قانون قومی دیہی صحت مشن ‘جواہر لال نہرو شہری ترقی مشن ‘ حق تعلیم قانون اقلیتوں کے لئے شروع کے گئے متعدد پروگرام خاص کر ملٹی سیکٹورل ڈویلوپمنٹ اسکیم وغیرہ وغیرہ کی نہ صرف جارحانہ تشریح کرنی ہوگی بلکہ آیندہ کے لئے اس سے بھی بہتر اسکیموں اور پروگراموں کا ابھی سے اعلان بھی کرنا ہوگا –
اس کے علاوہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے، اشیائے ضروری کی قیمتیں مناسب سطح پر لانےدیہی مسایل خاص کر زرعی زمرہ کے مسایل حل کرنے کا بلو پرنٹ بھی عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا – عوامی رابطہ میں کانگریس کی سابقہ حکومت بہت کمزور ثابت ہوئی تھی وہ مخالفین خاص کر بے جے پی کے جارحانہ حملوں کے سامنے بھیگی بللی بنی رہتی تھی جسکا خمیازہ اسے یہ بھگتنا پڑا کہ خود پر لگے بہت سے جھوٹے الزامات کا بھی وہ جواب نہیں دے پای – صدر کانگرس سونیا گاندھی نایب صدر راہل گاندھی اور وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی میڈیا سے دوری اور عوام تک اپنی بات نہ پہنچا پانا کانگرس اور اس کی حکومت کو بہت بھاری پڑا تھا-
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرایع ابلاغ کے اس دور میں کانگرس ہائی کمان کی یہ کمزوری زہر ہلاہل ثابت ہوئی- نیے صدر کانگر کو اب اپنی اور اپنی پارٹی کی اس کمزوری کو دور کرنے کی جانب فوری توجہ دینی ہوگی – راہل گاندھی کو یہ بھی ادراک کرنا ہوگا کہ اب روایتی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے اب آپ کو اپنے مد مقابل سے ہر معاملہ میں آگے رہ کر اس کی چالوں کو کاٹنا ہوگا صرف الیکشن کے وقت متحرک ہونے سے کام نہیں چلنا مد مقابل کی طرح ہمہ وقت الیکشن کی تیاری میں لگے رہنا ہوگا ہر الیکشن کی مہم ایک سال پہلے سے شروع کرنی ہوگی-
مد مقابل کی اچھی باتوں کو اختیار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کی ضرورت نہیں ہونے چاہئے الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے اور اپوزیشن کی سیاست کیسے ہوتی ہے یہ کانگریس کو بے جے پی سے سیکھنا چاہئے – ہاں ان کی نفرت اور فرقہ وارانہ باتوں کو نہ صرف مسترد کرنا چاہئے بلکہ اسکے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی زوردار مہم بھی چلانی چاہئے –مودی جی کی مقبولیت جب بام عروج پر تھی تو انھیں تیس فیصدی ووٹ ملے تھے مطلب ستر فیصدی عوام نے انکے نفرتی ایجنڈے کو مسترد کر دیا تھا راہل کو انہوں ستر فیصدی لوگوں اور مختلف پارٹیوں میں بٹے انکے ووٹوں اور قابل اعتماد سیاسی پارٹیون کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا اور اسکے لئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے _۔
راہل کو صرف کانگرس کو بر سر اقتدار لانے یا اس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی ذمہ داری نہیں ملی ہے بلکہ ہندستان کی جذباتی ہم آہنگی ‘اتحاد یک جہتی اور اسکی گنگا جمنی تھذیب و مشترکہ وراثت کی حفاظت کی تاریخی ذمہ داری بھی انکے کاندھوں پر آی ہے ان کو اپنی تمام تر توانائی اور صلاحیت گاندھی اور نہرو کے سپنوں کا ہندستان بنانے پر صرف کرنا ہوگا تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات ہوتی ہیں جنھیں کوئی تاریخی ذمہ داری ملے قدرت نے اس بار یہ ذمہ داری راہل کے کاندھوں پر ڈالی ہے ان کی کامیابی میں ہی ہندستان کی کامیابی مضمر ہے۔