چین کے خصوصی انتظامی خطے ہانک کانگ میں طلبہ نے احتجاج کے طور پر اسکولوں کا بائیکاٹ کیا اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی اور مظاہرین نے آدھے گھنٹے کے لیے ٹرینوں کا نظام متاثر کیا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ہانک کانگ میں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد آج (بروز پیر) سے جامعات میں کلاسز کا آغاز ہونا تھا لیکن طلبہ کی جانب سے 2 ہفتے تک بائیکاٹ کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ہانک کانگ میں جاری احتجاجی تحریک میں طلبہ کا کردار اہم ہے۔
علاوہ ازیں سیاہ لباس پہنے مظاہرین نے آج صبح مختلف اسٹیشنوں پر ٹرینوں کے دروازوں پر کھڑے ہوگئے اور انہیں بند ہونے سے روکا، اس دوران مظاہرین نے سرگرمیوں کے ہدف کے تحت ہانک کانگ میں ٹرینوں کے نظام کو مختصر عرصے کے لیے متاثر کیا۔
اس کے کچھ دیر سیکنڈری اسکولوں کے طلبہ نے کلاسز کے آغاز سے قبل سرکاری اسکولوں کے باہر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی۔
مظاہرین نے آدھے گھنٹے کے لیے ٹرینوں کا نظام متاثر کیا— فوٹو: اے ایف پی
پولیس سے جھڑپوں اور آنسو گیس سے بچاؤ کے لیےکچھ لوگوں نے گیس ماسکز، ہیلمٹس اور چشمے پہنے ہوئے تھے۔
ایک اسکول پر ہانک کانگ سے تعلیم حاصل کرنے والے چین کے سابق صدر سن یات سین کا کانسی کا مجسمہ بھی گیس ماسک اور چشمے کے ساتھ نصب تھا۔
کچھ درجنوں طلبہ نے شہر کے وسط میں منعقد ریلی میں شرکت کے لیے اسکول میں تادیبی کارروائی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
17سالہ طالبہ نے کہا کہ ’ ہانک کانگ ہمارا گھر ہے، ہم شہر کا مستقبل ہیں اور اسے بچانے کی ذمہ داری ہم پر ہے‘۔
ایک اور 17 سالہ طالبعلم نے کہا کہ ’ اگر ایک شہر میں آزادی نہ رہے، ہم اپنے خیالات بیان نہ کریں تو پھر تعلیمی میدان میں کامیابی اہم نہیں ہے‘۔
مظاہرین نے آج عام ہڑتال کی کال دی تھی جس کے امکانات کم ہیں جبکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سےدوپہر میں ریلی نکالی جائے گی۔
گزشتہ روز مظاہرین کی جانب سے ایئرپورٹ جانے والے راستے بند کرنے کے بعد ایک درجن کے قریب پروازیں منسوخ ہوگئی تھیں بعدازاں پولیس نے مظاہرین کو روک دیا تھا۔
اس سے قبل 31 اگست کو مظاہرین نے شہر کے وسط میں ریلی پر پابندی کے باعث مختلف مقامات پرآگ لگائی تھی اور پولیس پر پیٹرول بم برسائے تھے جس پر پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کے ذریعے ردعمل دیا تھا۔
مقامی میڈیا کی نشر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پولیس کی کارروائی کو ہولناک قرار دیا تھا۔
خیال رہے ہانک کانگ اپنی نوعیت کے ایک منفرد بحران کی زد میں جہاں لاکھوں افراد آزادی کے خاتمے اور بیجنگ کی جاانب سے ان کے معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف کسی رہنما کی قیادت کے بغیر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔
چین جو ہانک کانگ کی حکومت کی حمایت کررہا ہے اس نے دھمکی آمیز حربوں کے ذریعے احتجاج کا ردعمل دیا ہے جس میں شہر کے کاروباروں پر دباؤ ڈالنا اور سرحد کے نزدیک جنگی مشقوں کا انعقاد شامل ہے۔
گزشتہ روز چین کی سرکاری خبر ایجنسی زِن ہوا میں شائع اداریے میں دھمکی دی گئی تھی کہ احتجاجی تحریک کا اختتام نزدیک ہے تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔