لکھنؤ: شہریت ترمیمی قانون سی اے اے اور مجوزہ قومی شہریت رجسٹر این آر سی کے خلاف حسین آباد کے گھنٹہ گھر میدان میں سخت سردی، گلن کے باوجود مسلسل چوتھے روز خواتین کا مظاہرہ جاری رہا۔ اسی طرح گومتی نگر کے اجریاؤں واقع گنج شہیداں قبرستان میں خواتین نے دوشنبہ کے روز شام کے وقت سے دھرنا و مظاہرہ شروع کردیا۔
موقع پر پہنچی پولیس نے خواتین کو سمجھا بجھاکر مظاہرہ ختم کرانے کی کوشش کی لیکن دیر رات تک خواتین وہیں ڈٹی رہیں۔ دوشنبہ کے روز گھنٹہ گھر میدان میں خواتین نے رنگولی کے ذریعہ سی اے اے اور مجوزہ این آر سی کی مخالفت کا اظہار کیا۔
خواتین نے مظاہرہ کی فنڈنگ کے سلسلہ میں عائد کئے جارہے الزامات کے پیش نظر مظاہرہ کی جگہ کے آس پاس نو کیش نو پےٹی ایم کا بورڈ بھی لگایا ہے۔
دوشنبہ کے روز گھنٹہ گھر میدان پر منعقد احتجاجی مظاہرے کی حمایت کےلئے سبکدوش آئی پی ایس افسر ایس آر دارا پوری، پروفیسر روپ ریکھا ورما،مدھو گرگ وندنا مشرا، پروفیسر رمیش دکشت، رفعت فاطمہ، صدف جعفر اور پوجا شکلا سمیت دیگر شخصیات نے بھی پہنچ کر مظاہرین کی حمایت کی۔
ایس آر دارا پوری نے کہاکہ جب حکومت ایسا سیاہ قانون لاسکتی ہے تو کل کو کوئی دوسرا قانون بھی لایا جاسکتا ہے جس سے ملک اور ملک کے باشندوں کو خطرہ پیدا ہو۔ انہوںنے کہاکہ یہ کسی ایک مخصوص مذہب کے خلاف نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کے خلاف ہے۔
پروفیسر روپ ریکھا ورما نے کہاکہ دھرنے اور مظاہرے میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ عام خواتین اپنے حقوق کےلئے کھلے میدان میں دن رات کس طرح بیٹھی ہیں۔ حکومت پھوٹ ڈالو، راج کرو کی پالیسی اپنا رہی ہے جو عوام پر ظاہر ہوچکی ہے۔مدھو گرگ نے کہاکہ لکھنؤ کا مظاہرہ تاریخی ہے یہاں مظاہرہ کا اہتمام عام خواتین نے کیا ہے اور یہ مظاہرہ ظلم کے خلاف ان کے دل کی آوازہے۔
گھنٹہ گھر میدان پر خواتین کے ذریعہ مظاہرہ شروع کرنے کے بعد گھنٹہ گھر کی گھڑی پر چابی بھی نہیں بھرپارہی تھی جب حسین آباد ٹرسٹ کے ملازم چابی بھرنے کےلئے وہاں پہنچتے تووہاں پر تعینات پولیس اہلکار انہیں واپس کردیتے تھے۔ اس کی وجہ سے تین روز تک گھنٹہ گھر کی گھڑی خاموش رہی بعد میں ٹرسٹ کے انتظامیہ افسر حبیب الحسن کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ خود ملازمین کو اپنے ساتھ لے کر گھنٹہ گھر پہنچے اور انہوںنے اپنے سامنے گھڑی میںچابی بھروائی جس سے گھڑی کام کرنے لگی۔
انسانیت سب سے بڑا مذہب:- گھنٹہ گھر میدان پر خواتین کے مظاہرہ میں رات بھر ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو خواتین کے ذریعہ دیر رات کے وقت چائے اور پوری وغیرہ تقسیم کی گئیں۔
سعدیہ نے بتایاکہ پولیس اہلکار رات بھر جاگ کر ان کی حفاظت کررہے ہیں بھلے ہی وہ دھرنا و مظاہرہ ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پھر بھی وہ انسان ہیں اور انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ اس لئے ہم لوگ مظاہرہ کرنےو الی خواتین کے ساتھ پولیس اہلکاروںکو بھی کھانے پینے کا سامان تقسیم کررہے ہیں۔
rدن چڑھنے کے ساتھ ہجوم میں ہوا اضافہ:- مظاہرہ کی جگہ پر دن میں گیارہ بجے تقریباً ۱۵۰ سے ۲۰۰ خواتین موجود تھیں جب کہ دن چڑھنے کے ساتھ ہی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور شام ہوتے ہوتے خواتین کی تعداد ہزارو ںمیں پہنچ گئیں۔
مظاہرہ کے دوران خواتین نے گھنٹہ گھر کے سامنے رنگولی سے ہندی، انگریزی اور اردو میں نو سی اے اے -این آر سی ، وی ریجیکٹ سی اے اے -این آر سی، ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے جیسے نعرے زمین پر لکھے۔