فیس بک کی سابق ملازمہ فرانسس ہوگن نے اکتوبر 2021 کے آغاز میں انکشاف کیا تھا کہ دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا نیٹ ورک کا الگورتھم ہی اس انداز کا بنایا گیا ہے کہ وہ پرتشدد اور نفرت انگیز مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
فرانسس ہوگن نے امریکی ٹی وی چینل ’سی بی ایس‘ کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک کو صارفین کی ذہنی صحت یا فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنی کمائی کو اہمیت دیتا ہے۔
فرانسس ہوگن کو فیس بک کا حصہ بنے 2 سال بھی نہیں گزرے تھے اور اس عرصے میں انہیں احساس ہوا کہ فیس بک اور اس کی زیر ملکیت ایپ انسٹاگرام صارفین کو جو نقصان پہنچا رہی ہے اسے بدلنے کے لیے کمپنی خود مزاحمت کرتی ہے، جس پر انہوں نے دنیا کو حقیقت سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امریکی کانگریس اور میڈیا کے سامنے جاکر الزام عائد کیا کہ فیس بک کی جانب سے تحفظ کی بجائے منافع کو ترجیح دی جاتی ہے۔
وہ فیس بک کے اندرونی باتوں کو سامنے لانے والی اب تک کی سب سے نمایاں شخصیت ہیں اور ان کی جانب سے فیس بک کے پلیٹ فارمز پر بچوں کو نقصان پہنچانے اور سیاسی تشدد کو اکسانے کے الزامات کی حمایت کمپنی کی اپنی تحقیق کے ہزاروں صفحات بھی کرتے ہیں۔
اب تک فیس بک کے جو ورکرز آگے بڑھ کر اس کے خلاف نت نئے انکشافات سامنے لائے ان میں لگ بھگ سب خواتین ہی شامل ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں۔
فرانسس ہوگن کون ہیں؟
ریاست آئیووا سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر اور استاد کی بیٹی فرانسس ہوگن کی تعلیمی کوائف شاندار ہیں جس میں ہارورڈ کی بزنس ڈگری اور متعدد پیٹنٹس قابل ذکر ہیں۔
فیس بک کے حوالے سے انکشافات کرنے سے قبل فرانسس ہوگن کو مقامی طور پر کم عمری میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے والی خاتون سمجھا جاتا تھا۔
آئیووا یونیورسٹی کے کیمپس کے قریب پرورش پانے والی فرانسس ہوگن، جہاں ان کے والد میڈیسن کی تعلیم دیتے تھے، ایک ہائی اسکول کی اس انجنیئرنگ ٹیم کی رکن تھی جسے امریکا میں ٹاپ 10 میں شامل کیا گیا تھا۔
برسوں بعد جب گوگل پر فرانسس کی ملازمت پر مقامی اخبار میں لکھا گیا تو ایک اسکول ٹیچر نے انہیں خوفناک حد تک شفاف قرار دیا۔
2002 کے موسم خزاں میں بوسٹن میں قائم ہونے والے نئے اولین کالج آف انجنیئرنگ کے 75 افراد کے فرسٹ بیچ کا حصہ بنیں۔
اس بیچ میں شریک بیشتر افراد نے ممتاز یونیورسٹٰوں کی پیشکش کو مسترد کرکے اولین کی مفت تعلیم کی پیشکش کو قبول کیا تاکہ کچھ نہا کیا جاسکے۔
مگر طالبعلموں کی گریجویشن سے قبل کالج کو مستند تعلیمی ادارے کی حیثیت نہیں مل سکی تھی جس کے باعث فرانسس ہوگن اور ان جیسے دیگر کو رکاوٹ کا سامنا بھی ہوا۔
ایک کمپیوٹر سائنس پروفیسر لینن اینڈریا اسٹین نے بتایا کہ گوگل کے لوگوں نے فرانسس کی درخواست کو پڑھے بغیر ہی پھینک دیا تھا۔
لینن اینڈریا نے کمپنی کو اپنا خیال بدلنے میں مدد فراہم کی اور اس کے لیے ایک ای میل بھیج کر فرانسس ہوگن کے صلاحیتوں سے کمپنی کو آگاہ کیا۔
گوگل میں فرانسس ہوگن نے ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جس سے ہزاروں کتابیں موبائل فونز تک قابل رسائی ہوگئی اور ایک اور منصوبے سے ایک سوشل نیٹ ورک کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کی۔
گوگل نے فرانسس کی ہارورڈ سے گریجویٹ بزنس ڈگری کے اخراجات ادا کیے۔
2011 میں فرانسس کے ساتھ گریجویشن کرنے والے جوناتھن شییفی نے بتایا ‘اسمارٹ فونز معمول کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے، ہم ڈیٹا کے اخلاقی استعمال اور غلط استعمال پر بہت بات کرتے تھے، فرانسس لوگوں کی شخصیت اور ٹیکنالوجی کے باہمی تعلق میں بہت دلچسپی رکھتی تھیں’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ان حالیہ سوشل میڈیا پوسٹس پر قہقہے لگاتے ہیں جو فرانسس کے انکشافات کے مقاصد پر سوالات اٹھاتی ہیں ‘کوئی بھی فرانسس کو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کرسکتا’۔
فیس بک میں شمولیت
2018 کے آخر میں فیس بک کے ایک عہدیدار نے فرانسس سے رابطہ کیا اور انہوں نے حالیہ انٹرویوز میں بتایا کہ انہیں کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسی ملازمت میں دلچسپی محسوس کریں گی جس سے وہ پلیٹ فارم کو گمراہ کن مواد اور جمہوریت کو لاحق مسائل کی روک تھام میں مدد کرسکیں گی۔
انہوں نے منیجرز کو اپنے ایک دوست کے بارے میں بتایا جو آن لائن فورمز میں وقت گزار کر سفید فام نسل پرستی کی جانب مائل ہوا اور دیگر کے ساتھ ایسا ہونے سے بچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جون 2019 میں انہوں نے فیس بک کی اس ٹیم میں شمولیت اختیار کی جو عالمی سطح پر انتخابات سے متعلق سرگرمیوں پر توجہ دیتی ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ فیس بک کی جانب سے گمراہ کن مواد کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ اور اس کے باعث تشدد کی روک تھام میں فیس بک کے ناکافی کردار پر خوش نہیں تھیں۔
مئی میں انہوں نے استعفیٰ دیا مگر اس سے قبل ہفتوں تک وہ کمپنی کی اندرونی تحقیق کے نتائج اور ہزاروں دستاویزات کی نقول بنانے کا کام کرتی رہیں۔
انہوں نے امریکی کانگریس کو بتایا کہ وہ فیس بک کو تباہ کرنے کی بجائے بدلنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ میں فیس بک میں موجود مواقعوں پر یقین رکھتی ہوں، ہم ایسے سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو جمہوریت کو نقصان پہنچائے بغیر، بچوں کو خطرے میں ڈالے بغیر اور دنیا بھر میں نسلی تشدد کو بڑھاوا دیئے بغیر ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ سکے’۔
ایسا ہو بھی سکتا ہے مگر انڈسٹری کا کہنا ہے کہ فیس بک اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو گہرائی میں جانا ہوگا۔
سپورٹ ملنا
ایسے انکشافات کرنے والی برادری کا بڑا حصہ فرانسس کی حمایت کررہا ہے اور ان کی ہمت کو سراہ رہا ہے۔
فیس بک کی ایک سابق ملازم صوفی زینگ نے گزشتہ سال کمپنی پر الزام عائد کیا تھا کہ سوشل میڈیا غیر ملکی انتخابات کو نقصان پہنچانے والے جعلی اکاؤنٹس کو نظر انداز کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ حیران ہے کہ کمپنی فرانسس کو اس وقت پکڑ نہیں سکی جب وہ کمپنی کی تحقیق کے نتائج دیکھ رہی تھی۔
صوفی زینگ نے کہا ‘میرے خیال میں وہ ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جہاں وہ مسلسل تردید کے ساتھ زیادہ آگ لگا رہی ہے جس کے نتیجے میں مزید لوگ آگے آئیں گے’۔
کنٹری وائیڈ فنانشنل کی سابق عہدیدار ایلین فوسٹر نے کہا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ فرانسس کے اقدامات کے نتیجے میں ان کے لیے اس صنعت میں کسی اور ملازمت کا حصول ناممکن ہوجائے اور اگر فیس بک نے دستاویزات کی واپسی کے لیے قانون کا سہارا لیا، تو اس کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں جن کا مقابلہ ایک ملازم نہیں کرسکتی۔