مصطفی اجبیلی؛
القاعدہ سے مرعوب دولت اسلامی عراق و شام ‘داعش’ کے جنگجو عراق اور شام کے متعدد علاقوں کو اپنا زیر نگین بنانے کے بعد اگلے مرحلے میں اب سوشل میڈیا میں بھی پاوں جما رہے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے، پروپیگنڈہ کی تشہیر اور مالی امداد حاصل کرنے کے لئے داعش جدید طریقے اپنا رہی ہے۔
العربیہ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق ایک طریقہ ‘فجر البشائر’ نامی ٹویٹر ایپلی کیشن ہے۔ ٹویٹر نے [@Fajr991] اپیلی کیشن کو ‘ممکنہ طور پر خطرناک’ قرار دے رکھا ہے، اسے استعمال کرنے کے خواہشمند کو اپنے ذاتی کوائف دینا ہوتے ہیں۔ ڈاون لوڈ کر لینے کے بعد یہ اپیلی کیشن آئی ایس آئی ایس کی شام اور عراق میدان جنگ کی تازہ ترین خبریں ارسال کرتی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ گوگل اینڈرائڈ پلے سٹور کے ذریعے ہزاروں افراد اسے اپنے سمارٹ فون میں ڈاون لوڈ کر چکے ہیں۔ایپلی کیش اپریل میں تیار کی گئی، تاہم دو ہفتے قبل شمالی عراق کے شہر موصل پر جہادی گروپ کے قبضے کے بعد اس کے بارے میں بہت زیادہ سرگرمی دیکھنے میں آئی۔
اس کے علاوہ آئی ایس آئی ایس سے وابستہ ٹویٹر اکاونٹس ہیش ٹیگ مہم چلا رہے ہیں۔ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں انٹرنیٹ صارفین خصوصی ہیش ٹیگز ٹویٹ کر رہے ہیں، جس کے بعد وہ روانہ کی بنیاد پر عرب دنیا کے مشہور ہیش ٹیگز اکاونٹ @ActiveHashtags پر نمودار ہوتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس پروپیگنڈہ کے لیے میڈیا پروڈکشن کی جدید طریقے استعمال کرتی ہے۔ ان طریقوں کا اظہار تنظیم کے اعلی کوالٹی ویڈیوز میں ملتا ہے۔ ایک ویڈیو میں ابو مثنی الیمنی نامی برطانوی دو دیگر جہادیوں کی معیت میں غیر ملکی نوجوان مسلمانوں کو شام اور عراق میں جاری اپنے مشن میں شمولیت کی دعوت دیتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
مغربی مسلمان
ایک اور معیاری ویڈیو میں آئی ایس آئی ایس کے جنگجووں کو عراق یا شام کے کسی نامعلوم علاقے میں مزعومہ شرعی قانون کا نفاذ دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں چند نوجوان بازار میں عوام کو نماز کی تلقین کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ نیز ایک گروہ کو منشیات کے خلاف شبینہ کارروائی اور مزاروں کو تباہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ داعش مزارات کو بت پرستی کا پرتو سمجھتی ہے۔
مغربی مسلمان آئی ایس آئی ایس کے سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کا خصوصی ہدف ہیں۔ اسی لئے تنظیم اپنی میڈیا پروڈکشنز کا زیادہ سے زیادہ مغربی زبانوں میں ترجمہ کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
الغرابہ [یعنی اجنبی] میڈیا کا ‘بلین مسلمان مہم’ کی تشہیر کے لئے تیارکردہ تعارفی فلائر [ٹویٹر]
یہ کام الفرقان میڈیا، فرسان البلاغ میڈیا، السوارطی میڈیا اور الحیات میڈیا سینٹر جیسے جدید میڈیا ادارے سرانجام دیتے ہیں۔ الغرابہ میڈیا اپنا دفتر جرمنی سے چلاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر [http://justpaste.it/ma_asabak] سائٹ پر آئی ایس آئی ایس کے ترجمان ابو محمد العدنانی الشامی کی تازہ تقاریر اور خطابات کا انگریزی، ترکی، ڈچ، فرانسیسی، جرمنی، بھاسا [انڈونیشیا] اور روسی ترجمہ دیا جاتا ہے۔
موصل کی جیل سے قیدیوں کی رہائی کا منظر آئی ایس آئی ایس کیمرے کی آنکھ سے
معروف دانشور اور “جہاد جو: اسلام کے نام پر لڑنے جانے والے امریکی” نامی کتاب کے مولف جے ایم برگر رقمطراز ہیں: “آئی ایس آئی ایس کو باقاعدہ آن لائن حمایت ملتی ہے، مگر یہ حمایت خواہش سے ہوتی ہے۔ یہ سارا عمل اس محدود سرپرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس کے آشکار ہونے پر سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے گرو یقینا شرمسار ہوں گے۔”
‘الحیات میڈیا سینٹر’ نے داعش کی جانب سے موصل پر قبضے کی ویڈیو جاری کر دی
اکیسویں صدی سیکیورٹی اور سراغرسانی مرکز کے ڈائریکٹر اور فارن پالیسی پروگرام کے سینئر فیلو پیٹر ڈبلیو سنگر نے ‘العربیہ’ کو بتایا کہ آئی ایس آئی ایس نے سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمی تیز کی ہیں۔ انہیں دیکھ جنگی حکمت عملی اور میڈیا ٹکنالوجی کا خوبصورت امتراج ابھر کر سامنے آتا ہے۔
سنگر نے مزید کہا: “کریمیا جنگ سب سے پہلے ٹیلی گراف پر رپورٹ کی گئی جبکہ ویت نام کی جنگ کو سب سے پہلے ٹی وی کوریج ملی۔ اب ہم شام اور عراق میں لڑائی دیکھ رہے ہیں۔ یہ میڈیا ٹکنالوجی کا وسیع استعمال ہے جس سے ہمیں ایسا لگتا یے کہ ہم بھی اسی ویڈیو گیم کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جہادی سرگرمی میں اضافہ لوگوں کے ورچوئل سپیس کے وسیع استعمال کا مرہون منت ہے۔ ایسے تنازعات کی وجہ سے اس میڈیم پر حکومت کنڑول واجبی رہ جاتا ہے۔ “چھوٹی حکومتیں انٹرنیٹ پر تمام مواد کنڑول کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا یہ عمل ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ تیز ہوا کے ہوتے ہوئے صحرا میں ریت کے قلعے تعمیر کر رہے ہوں۔”
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے فارن پالیسی پروگرام سے وابستہ سینئر فیلو ونڈا فیلباب براون نے کہا ہے کہ سائبر سپیس میں دہشت گردی پر قابو پانے کی بڑی کوشش ہو رہی ہے، تاہم یہ بلی چوہے کا کھیل ہے۔ اس میں دہشت گرد اور جرائم پیشہ دونوں ہی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بین الاقوامی تنازعات اور غیر روایتی سیکیورٹی خطرات کے ماہر فیلباب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خفیہ ادارے بعض جہادی تنظیموں کی ویب سائٹ کو اس لیے بند نہیں کرتے کیونکہ وہاں سے انہیں معلومات ملتی رہتی ہے۔
(، العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو)