نئے نوول کورونا وائرس کی وبا چین میں اب دم توڑنے لگی ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔
18 مارچ کو چین میں مقامی طور پر کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا کوئی مقامی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ 19 مارچ کو بھی ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، تاہم بیرون ملک سے آنے والے افراد میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی۔
اس ک مقابلے میں چین سے باہر 18 مارچ کو ہزاروں کیسز کی تشخیص ہوئی۔
تو آخر چین نے اس وبا کی روک تھام میں کامیابی کیسے حاصل کی؟
اس کا جواب عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلورڈ نے دیا جو 25 طبی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ کے طور پر چین کے دورے پر گئے تھے۔
چین سے واپسی پر انہوں نے بتایا کہ چین میں لاکھوں افراد اس بیماری سے اس لیے بچ گئے کیونکہ وہاں بہت جارحانہ قسم کا ردعمل ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چینی حکومت کی تیکنیک پرانے زمانے کی تھی مگر ان کا اطلاق نئے انداز سے اس پیمانے پر کیا گیا جیسا ہم نے تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔
چین کے ایسے ہی موثر اور ڈرامائی طریقہ کار جانیں جنہوں نے اس نئے کورونا وائرس کی روک تھام میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ٹرینوں میں مسافروں پر پابندی
جب عالمی ماہرین کی ٹیم ٹرین کے ذریعے ووہان کے سفر پر نکلی تو ٹرینیں چلتی نظر آئیں مگر ڈاکٹر ایلورڈ کا کہنا تھا ‘ٹرینیں اسٹیشنز سے گزررہی تھیں مگر ان میں کوئی مسافر نہیں تھا’۔ درحقیقت ٹرینیں اور ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع بیماری کے پھیلائو کا باعث بن رہے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم جگہ پر بہت زیاہد لوگ موجود ہوتے ہیں اور ان میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور چین نے ٹرینوں میں مسافروں سمیت ووہان میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مکمل طور پر بند کردیا تھا۔
لاتعداد بخار چیک کرنے والے مراکز کا قیام
جن لوگوں کے بارے مں یہ خیال کیا جاتا کہ وہ نوول کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں، انہیں اکثر خصوصی بخار چیک کرنے والے مراکز میں بھیجا جاتا جو کہ اس ملک میں 2002 میں سارز وائرس کی وبا کے بعد سے بڑے پیمانے پر قائم کیے گئے تھے۔
ان افراد کا جسمانی درجہ حرارت لیا جاتا، ان کی علامات، طبی تاریخ، سفری تاریخ اور کسی متاثرہ فرد سے تعلق پر بات کی جاتی، اس کے بعد ضروری سمجھا جاتا تو سی ٹی اسکین کرایا جاتا جو کہ کووڈ 19 کی ابتدای تشخیص کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ایلورڈ نے اس بارے میں بتایا کہ ہر مشین ممکنہ طور پر 200 ٹیسٹ کرسکتی ہے، فی اسکین میں 5 سے 10 منٹ کا وقت لگتا، جبکہ مغربی ممالک میں عام طور پر یہ کام ایک سے 2 گھنٹے میں ہوتا ہے۔
ایسے کیسز کو مشتبہ سمجھا جاتا اور کوورنا وائرس پی سی آر ٹیسٹ کرایا جاتا، چین میں وبا کے عروج کے دوران لاکھوں افراد بخار چیک کرنے والے مراکز میں موسمی نزلہ زکام، فلو کی شکایات کے ساتھ آئے تاکہ تصدیق کرسکیں کہ وہ کورونا وائرس کے شکار تو نہیں۔
ڈاکٹر ایلورڈ کے مطابق وبا کے عروج میں ایسے ہر مرکز پر روزانہ 46 ہزار افراد آئے اور یہ تعداد اب گھٹ کر صرف ایک ہزار رہ گئی ہے۔
کورونا وائرس کے ٹیسٹ تک آسان اور مفت رسائی
بخار چیک کرنے والے مراکز میں اگر مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجاتی تو انہیں آئسولیشن سینٹر یا ہسپتال بھیجا جاتا۔
عالمی ادارے کے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ووہان میں آغاز میں بیمار افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے میں 15 دن لگتے تھے، مگر اس دورانیے کو 2 دن تک لایا گیا۔
چینی حکومت نے نئے وائرس کے ٹیسٹ کو مفت کیا اور اس سے متعلق اخراجات کو مریض کے انشورنس سے نہیں کاٹا گیا بلکہ حکومت نے اس کی ادائیگی کی۔
ریکارڈ مدت میں ہسپتالوں کی تعمیر
چین نے محض 10 دن میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل عارضی ہسپتال کو تعمیر کیا جبکہ 13 سو بستروں کا ہسپتال 15 دن میں مکمل کیا، مجموعی طور پر ایسے درجن سے زیادہ ہسپتالوں کی تعمیر ہوئی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب چین نے اتنی تیزی سے ہسپتالوں کو تعمیر کیا، سارز وائرس کی وبا کے دوران بھی بیجنگ میں ایک ہسپتال کی تعمیر ایک ہفتے میں ممکن بنائی گئی تھی جس کے لیے 7 ہزار افراد نے دن رات کام کیا تھا۔
ان ہسپتالوں کے علاوہ متعدد دیگر عمارتوں کو بھی کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیا گیا اور ڈاکٹر ایلورڈ کے مطابق چین میں ایک تربیتی مرکز یا اسٹیڈیم کو 24 سے 72 گھنٹوں میں طبی مرکز میں بدلا گیا، ایسا کرنے سے ووہان میں ہزاروں مریضوں کے علاج کو ممکن بنایا جاسکا۔
پہلے سے موجود ہسپتالوں کی گنجائش میں اضافہ
عارضی ہسپتالوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ چین نے پہلے سے موجود ہسپتالوں کو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیا اور ان کی گنجائش بڑھا کر دیگر مریضوں کے لیے انہیں بند کردیا۔
عالمی ادارے کے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ چینی حکومت نے ہسپتالوں کو عام خدمات کے لیے بند کرکے کووڈ 19 کے لیے مختص کیا، یعنی چین نے کچھ بستروں کو آئسولیشن کے لیے مختص کرنے کی بجائے پورے حصے کو ہی سیل کرکے مریضوں کے لیے 40 بستروں کی جگہ 100 بستروں کے آئسولین یونٹ بنادیئے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں چین کی رفتار سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جتنی تنزی سے آپ کیسز دریافت کرکے انہیں آئسولیشن میں منتقل ، ان کے قریبی افراد کی مانیٹرنگ کریں گے، اتنی ہی کامیابی سے وبا کو روکنے میں مدد ملے گی۔
نگرانی کا وسیع نظام
چین نے 2002 کی سارز وائرس کی وبا کے بعد بڑے پیمانے پر کام کرنے والے نگرانی کے نظام کو قائم کیا تھا جس میں لوگوں کے تعلق کو تلاش کرنا بھی شامل تھا، جوکہ متاثرہ افراد کے رابطے میں رہنے والے افراد کی شناخت اور ان کی صحت پر نظر رکھنے کے لیے صف اوال کی طبی حکمت عملی ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر ایلورڈ کے مطابق چینی طبی حکام نے اس ٹیکنالوجی کو غلطی سے پاک بنایا، یہاں تک کہ اگر کسی ٹریسر سے غلطی ہوجاتی تو اس کی اسکرین پر ایک زرد الرٹ فلیش کرنے لگتا۔
عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ کچھ ممالک نے متاثرہ افراد کے تعلق میں رہنے والے لوگوں کی تلاش کے کام سے ابتدائی مراحل میں ہی ہاتھ اٹھالیا، جس سے کیسز بڑھ گئی۔
ادارے کے مطابق یہ حکمت عملی موثر، سستی اور بنیادی ہے جو سماجی فاصلے جیسے اقدامات کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ہے۔
ہر کیس کو ڈھونڈنے کی ٹیکنالوجی
چینی طبی حکام نے ملک میں 80 ہزار سے زائد لگ بھگ ہر کیس کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
اس مقصد کے لیے چین بھر میں ایمرجنسی سینٹرز نے کردار ادا کیا اور حکام نے یہ سراغ لگایا کہ کہاں کیسز پھیل رہے ہیں اور گورنرز نے فیلڈ ٹیموں کو فوری طلب کیا۔
ڈاکٹر ایلورڈ کے مطابق یہ ٹیمیں مسلسل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی رہی کہ کوئی بھی کیس بچ نہ سکے اور اس کے پھیلائو کے تمام ذرائع تک وہ پہنچ سکیں۔
چینی سوشل میڈیا نے وائرس کے حوالے سے مستند اور تازہ ترین معلومات کو شیئر کیا اور افواہوں اور جعلی معلومات کو پھیلنے سے روکا، عالمی ادارے کے مطابق یہ کردار فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کو بھی ادا کرنا چاہیے۔
دیگر مریضوں کے لیے ڈاکٹروں کی آن لائن دستیابی
ڈاکٹر ایلورڈ نے بتایا کہ وبا کے عروج کے دوران چین نے متعدد طبی خدمات کو آن لائن منتقل کیا اور مریضوں کو آن لائن مشاورت فراہم کی گئی جس کے باعث انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی، اس کے لیے مریضوں کو آن لائن ہر طرح کی سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔
گھروں تک محدود ہونے کے باوجود کھانے اور دیگر اشیا کی سپلائی کو یقینی بنانا
چین میں متعدد شہروں کو قرطینہ میں ڈال کر شہریوں کو گھروں تک محدود کردیا گیا تھا تاکہ وہ وائرس کو پھیلان کا باعث نہ بن سکیں۔
ڈاکٹر ایلورڈ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد نے اس دوران آن لائن خوراک منگوائی جو ان تک پہنچائی بھی گئی، یقیناً کچھ مقامات پر غلطیاں ہوئیں مگر ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ کبھی کبھار میرا پیکج گم ہوگیا مگر میرا جسمانی وزن کم نہیں ہوا۔
دنیا کے دیگر ممالک میں لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کے حوالے سے یہ خوف موجود ہے کہ انہیں اشیا کی قلت اور خوراک سے محرومی کا سامنا نہ ہو۔
روزگار کے متبادل مواقع
ڈاکٹر ایلورڈ نے بتایا کہ جب وائرس پھیلنا شروع ہوا تو چین بھر میں متاثرہ صوبے ہوبے کے لیے یکجہتی کا احساس پیدا ہوا، دیگر صوبوں سے 40 ہزار طبی ورکرز کو وبا کے مرکز میں بھیجا گیا جن میں سے بیشتر رضاکارانہ طور پر آئے تھے۔
ٹرانسپورٹ، زراعت اور دفتری امور کے عملے کو نئی جگہوں پر کام فراہم کیا گیا۔
ڈاکٹر کے مطابق ہائی وے کا اہلکاروں کو درجہ حرارت جانچنے، خوراک پہنچانے یا مریضوں کے قریبی افراد کی تلاش کا کام دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ہسپتال میں ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو لوگوں کو مختلف ہدایات دے رہی تھیں، میرے پوچھنے پر اس خاتون نے بتایا کہ وہ انفیکشن کنٹرول ماہر نہیں بلکہ ایک ریسیشنسٹ ہے۔
روک تھام کے لیے شہریوں کا کردار
مختلف ممالک میں لوگ وبا کی وجہ سے اشیا کا ذخیرہ کررہے ہیں مگر ڈاکٹر ایلورڈ نے بتایا کہ چین میں لوگوں کا رویہ باللکل مختلف تھا اور وہ متحد ہوگئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ووہان کوئی گائوں نہیں بلکہ نیویارک سے بھی بڑا شہر ہے، جہاں گھومنے پر سڑکیں اور گلیاں ضرور سنسان نظر آتیں مگر ہر کھڑکی اور عمارت سے لوگ وائرس کی روک تھام کے لیے مدد فراہم کررہے تھے۔
علامات چھپانے پر سزا
ایک خاتون حال ہی میں امریکا سے بیجنگ پہنچی اور وہاں اس نے علامات چھپائیں مگر ٹیسٹ میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، اب بیجنگ پولیس نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ اس خاتون سے تفتیش کی جارہی ہے اور وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول کے اقدامات کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔