لاما نما جانور وکیونا کی نسل کبھی معدومی کے خطرے سے دوچار تھی لیکن اب لاطینی امریکہ کے ملک پیرو کے پہاڑی سلسلے اینڈیز میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ ان سے حاصل ہونے والی بیش قیمت اون سے منسلک ایک خودکفالت کا وہ منصوبہ تھا جس میں مقامی افراد کے لیے اس جانور کی بقا میں ان کا فائدہ تھا۔
وکیونا پیرو کے دل اور روح میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ اس ملک کا قومی جانور ہے اور اس کی تصویر اس کی پرچم، سکوں اور قومی نشانوں پر دکھائی دیتی ہے ۔ وکیونا علم حیاتیات کے اعتبار سے لاما کا رشتے دار ہے اور سائز میں اس سے تھوڑا چھوٹا ہوتا ہے۔
پیرو سے شمالی ارجنٹینا تک پھیلی قدیم انکا سلطنت کی پہاڑیوں اینڈیز الٹیپلانو میں اندازا 20 لاکھ وکیونا گھومتے پھرتے ہیں۔
انکا لوگوں کا یقین تھا کہ وکیونا خاص طاقتوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس کو مارنا ممنوع تھا اور صرف انکا اشرافیہ کو وکیونا سے حاصل کی گئی دارچینی کے رنگ جیسی غیرمعمولی طور پر عمدہ اون سے تیار کیے گئے لباس پہننے کی اجازت تھی۔
سنہری رنگ کے اس فلیس کی خواہش صدیوں تک انسان کرتے رہے ہیں جس سے یہ جانور معدومی کے خطرے سے دوچار ہوگیا۔
نرم لیکن سخت
یہ جانور بظاہر نرم و نازک دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ انتہائی بلندی پر رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خون میں سرخ خلیوں کی زیادہ تعداد انھیں آکسیجن حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
منفرد نظامِ انہضمام کی بدولت وہ سخت قسم کی اچو گھاس پر گزارا کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاص بات ان کی الگ ہوجانے والی اون ہے۔ مختلف قسم کی فائبر کی حامل 12 سے 14 مائیکرونز قطر پر مشتمل اس قدرتی اون کا شمار دنیا کی بہترین اونوں میں ہوتا ہے۔ (کشمیری اون میں یہ سطح 14 سے 19 مائیکرونز اور موہائر میں تقریبا 25 مائیکرونز ہوتی ہے)۔
ٹیکسٹائل کی دنیا میں کپڑا جتنا نفیس اور ملائم ہوگا وہ اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے۔ وکیونا کی سست رفتار سے بڑھنے والی اون کو اکٹھا کرنے کی مشقت اسے بیش قیمت بناتی ہے۔ وکیونا کی اون سے تیار کی گئی مصنوعات کشمیری پشمینہ مصنوعات سے پانچ گنا زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔
نرم دلی کی رسم
سلطنت انکا کے دور میں یہ قیمتی اون ہر چار سال بعد جمع کی جاتی تھی جسے ایک نرم دلی کی رسم ‘چکو’ کہا جاتا تھا، اس دوران وکیونا کے ریوڑوں کو جمع کیا جاتا ہے، ان کی اون اتاری جاتی اور رہا کر دیا جاتا۔ اس سے بننے والا کپڑا سونے کی طرح سمجھا جاتا اور شاہی گوداموں میں ذخیرہ کیا جاتا تھا۔
جب سنہ 1532 میں ہسپانوی حملہ آور آئے اور انھوں نے ایسی نرم و نازک اون دریافت کی تو انھوں نے اس جانور کا بندوقوں سے شکار شروع کر دیا۔ یہ قتل کئی صدیوں تک جاری رہا۔ بیسویں صدی کے وسط تک وکیونا سے بنے اوورکوٹ یورپ اور امریکہ میں شاہانہ زندگی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ لیکن وکیونا کی تعداد کم ہو کر دس ہزار سے بھی کم رہ گئی۔ وہ معدومی کے خطرے کی راہ پر تھے۔
تحفظ کی ضرورت
اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے پیرو نے ملک کی پہلی وکیونا پناہ گاہ لوکانس صوبہ کے پہاڑی علاقے میں سنہ 1967 میں 16000 ایکڑ کا پمپا گالیراس نیشنل ریزرو قائم کیا۔
دو سال بعد وکیونا کی تمام مصنوعات کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سنہ 1975 میں کنوینشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈیجرڈ سپیشیز نے وکیونا کو ‘انتہائی خطرے سے دوچار’ جانور قرار دیا اور بین الاقوامی سطح پر وکیونا کی مصنوعات کی تمام تجارت پر پابندی عائد کر دی۔
لیکن غیر قانونی شکار بلیک مارکیٹ میں اس کی بھاری قیمتوں کے لالچ میں باز نہ آئے جو ایک ہزار ڈالر فی کلو تھی۔ قانون کا عملی طور پر نفاذ تقریبا ناممکن تھا کیونکہ یہ وکیونا کی آماج گاہیں بہت پھیلی ہوئی تھیں اور دور دراز علاقوں میں پیٹرولنگ مشکل تھی۔ آبادی مسلسل کم ہو رہی تھی۔
روایت کو دوبارہ زندہ کرنا
حکام اور جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والوں کو معلوم تھا کہ انھیں اس مقدس جانور کو بچانے کے لیے کچھ بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اگر قدیم انکا چکو جیسی رسم کو دوبارہ اجاگر جائے؟ اگر دیہی افراد کو ان کے علاقوں میں رہنے والے وکیونا کا نگران قرار دیا جائے اور انھیں ان جانوروں سے اون اتارنے اور فروخت کرنے کی اجازت دے دی جائے؟
اون حاصل کرنے ملک کی غریب ترین اور دور دراز ترین آبادی معاشی طور پر خودکفیل ہو سکتی ہے، اور غیرقانون شکار کو روکنے میں مدد کر سکتی تھی۔
اس منصوبے سے غیرقانونی شکاریوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی کیونکہ ایسے جانور کو مارنے کا کیا فائدہ جس کی اون پہلے ہی اتری ہوئی ہو۔
حیران کن بحالی
وکیونا کی آبادی دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی اور سنہ 1994 میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندی اٹھالی گئی۔
سنہ 2008 میں وکیونا کو خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں ‘انتہائی کم درجہ’ دے دیا گیا۔
پمپا گالیراس کے ایک ماہر حیاتیات سانتاگو پریدیس گوئریرو کا کہنا ہے کہ ‘وکیونا دنیا کے ان چند جانوروں میں سے ہے جو معدومی سے خطرے سے بحال ہوا ہے۔’
‘یہ ختم ہونے کے دہانے پر تھا۔ اور تحفظ کی کوششوں کے بعد اس کی آبادی میں بحالی ہوئی ہے۔ اس وقت پیرو میں 20 لاکھ سے زائد وکیونا ہیں۔ یہ ایک علامتی جانور ہے، اور بطور ایک ماہر حیاتیات میں اس قسم کے جانور کے ساتھ ہمیشہ کام کرنا چاہتا تھا کہ جو پیرو کی قومی حیاتی نظام میں تنوع کا نمائندہ ہے۔’
ایک خوشی کی تقریب
ہر برس جون میں چکو کی رسم پیرو بھر میں دیہی علاقوں میں منعقد کی جاتی ہے۔
24 جون کو منعقد ہونے والی سالانہ تقریب کو اب پمپا گلیراس باربرا ڈی اچل نیشنل ریزرو کہا جاتا ہے جس میں سیاح شرکت کر سکتے ہیں اور یہاں انکا دور کے لباس، موسیقی اور رقص شامل ہوتا ہے۔
کئی بس ٹور کمپنیاں چکو کے لیے 100 کلومیٹر پر مشتمل سفر کرواتی ہیں، جس میں خشک پہاڑیوں پر عمودی سڑکوں اور گھانس پھونس کے میدانوں میں جنگلی حیات کو دیکھا جاتا ہے۔
سیاحوں کا پہلا سٹاپ عموما ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہوتا ہے جو وکیونا ور مقامی جنگلی حیات سے متعلق ہوتا ہے۔ اکیلے سفر کرنے والوں کے لیے دیہات میں رہائش کا انتظام بھی ہوتا ہے۔
مویشیوں کے باڑے کا قیام
پریدیس کہتے ہیں کہ ‘سال کے ان دنوں مقامی افراد کئی کلومیٹر لمبی لکڑی کے کھمبوں کی قطاروں سے بوتل کی گردن کی شکل بناتے ہیں۔
‘ایسا چکو کے دن سے پہلے سے کیا جاتا ہے۔ پھر۔۔۔ کئی رسیوں کو جوڑا جاتا ہے اور اس سے پلاسٹک کے ٹکڑوں اور شور پیدا کرنے والی چیزوں کو جوڑا جاتا ہے، ایسا کرنے سے وکیونا بوتل کی گردن جیسی شکل والے حصے میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔’
اس حصے کے آخر میں کھمبوں کی مدد سے باڑا بنا ہوتا ہے۔ وکیونا کو باڑے کی جانب ہانکا جاتا ہے۔ جب وکیونا اس میں آجاتے ہیں۔۔۔ ایک تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں انکا لوگ وکیونا کی اون کچھ حصہ سورج دیوتا کے نام کرتے ہیں۔’
اون مونڈنے میں احتیاط
لوکناس صوبے میں وکیونا پراجیکٹ سے منسلک وکٹر کوٹرینا کہتے ہیں کہ ‘چکو کے دوران رینجرز نظر رکھتے ہیں کہ کسی جانور کو کسی صورت کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ایک وکیونا کو دو سال میں صرف ایک بار مونڈا جا سکتا ہے۔ (جدید تحقیق کے مطابق ایک وکیونا کو نقصان پہنچائے بغیر اسی حساب سے مونڈا جا سکتا ہے۔) ہم مناسب جانور منتخب کرتے ہیں، مونڈتے ہیں اور آزاد کر دیتے ہیں۔’
وکٹر کوٹرینا کہتے ہیں کہ ‘ہم تمام وکیونا کے صحت کا بھی معائنہ کرتے ہیں۔۔۔ اس قسم کا کام کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف یہی موقع ہوتا ہے۔’
‘ٹریڈ ان وکیونا فائبر: امپلی کیشنز فار کنزویشن اینڈ رورل لائیولی ہڈز’ کے مصنفین الیگزینڈر کیسٹرین اور گیبریلا لچنسٹین کے مطابق ‘ایک جانور سے مونڈی گئی اون تقریبا 200 گرام ہوتی ہے جسے پہلے ہاتھ سے صاف کیا جاتا اور پھر فروخت کے لیے رنگ کیا جاتا ہے۔ خام مال 300 سے 450 ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔’
دیہی افراد وکیونا سے تیار کردہ مصنوعات کا دو سے چھ فیصد معاوضہ کماتے ہیں جو ماہرین کے خیال میں خاصا کم ہے۔
انتہائی نفیس کپڑے کی فروخت
اون کا کچھ حصہ پیرو میں رکھا جاتا ہے جو مقامی ٹیکسٹائل بنانے والے اور فنکار استعمال کرتے ہیں لیکن زیادہ تر اطالوی کمپنی لورو پیانا برآمد کرتی ہے، جس کے پاس اون کو بننے اور نفیس کپڑا تیار کرنے کی خصوصی مشینری موجود ہے، اور اس نے پیرو میں اس جانور کے تحفظ کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے، یہاں تک کہ سنہ 2008 میں انھوں نے جانوروں کی اپنی پناہ گاہ قائم کی تھی۔
اس کمپنی کی خالص وکیونا کی مصنوعات میں اس کے سکارف $3,195، جمپرز $4,795، کمبل $12,000 اور جیکٹس $18,595 میں فروخت ہوتے ہیں۔
اگرچہ وکیونا کی آبادی کو دوبارہ بڑھنا کامیابی کی ایک داستان ہے لیکن یہ جانور اور یہاں رہنے والے افراد ایک اور طرح کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ ہے موسمیاتی تبدیلی۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، برفیلے تودوں کا پگھلنا اور خشک سالی سے اس جانور کے ماحول اور دیہی افراد کے طرز زندگی دونوں کو خطرہ ہے۔